‌صحيح البخاري - حدیث 2798

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ تَمَنِّي الشَّهَادَةِ صحيح حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ الصَّفَّارُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلاَلٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَأُصِيبَ، ثُمَّ أَخَذَهَا جَعْفَرٌ فَأُصِيبَ، ثُمَّ أَخَذَهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيبَ، ثُمَّ أَخَذَهَا خَالِدُ بْنُ الوَلِيدِ عَنْ غَيْرِ إِمْرَةٍ فَفُتِحَ لَهُ»، وَقَالَ: «مَا يَسُرُّنَا أَنَّهُمْ عِنْدَنَا» [ص:18] قَالَ أَيُّوبُ أَوْ قَالَ: «مَا يَسُرُّهُمْ أَنَّهُمْ عِنْدَنَا وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2798

کتاب: جہاد کا بیان باب : شہادت کی آرزو کرنا ہم سے یوسف بن یعقوب صفار نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے ، ان سے ایوب نے ، ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا آپ نے فرمایا فوج کا جھنڈا ا ب زید نے اپنے ہاتھ میں لیا اور وہ شہید کر دیئے گئے پھر جعفر نے لے لیا اور وہ بھی شہید کر دیئے گئے پھر عبد اللہ بن رواحہ نے لے لیا اور وہ بھی شہید کر دیئے گئے اور اب کسی ہدایت کا انتظار کئے بغیر خالد بن ولید نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔ اور ان کے ہاتھ پر اسلامی لشکر کو فتح ہوئی ۔ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور ہمیں کوئی اس کی خوشی بھی نہیں تھی کہ یہ لوگ جو شہید ہو گئے ہیں ہمارے پاس زندہ رہتے کیونکہ وہ بہت عیش وآرام میں چلے گئے ہیں ۔ ایوب نے بیان کیا یاآپ نے یہ فرمایا کہ انہیں کوئی اس کی خوشی بھی نہیں تھی کہ ہمارے ساتھ زندہ رہتے ، اس وقت آنحضرت کی صلی اللہ علیہ وسلم آنکھوں سے آنسوجاری تھے ۔
تشریح : ہوا یہ تھا کہ ۸ھ میں آپؐ نے غزوۂ موتہ کے لئے ایک لشکر روانہ کیا۔ زید بن حارثہ کو اس کا سردار مقرر کیا‘ فرمایا اگر وہ شہید ہو جائیں تو جعفر کو سردار بنانا‘ اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہ کو۔ اتفاق سے یکے بعد دیگرے یہ تینوں سردار شہید ہوگئے اور خالد بن ولید نے آخر میں افسری جھنڈا اٹھا لیا تاکہ مسلمان ہمت نہ ہاریں کیونکہ لڑائی سخت ہو رہی تھی۔ گو ان کے لئے آنحضرتﷺ نے کچھ نہیں فرمایا تھا۔ آپؐ کافروں سے یہاں تک لڑے کہ اللہ نے آپ کے ذریعہ اسلام کے لشکر کو فتح نصیب فرمائی۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے خوش ہو کر خالد کے حق میں فرمایا کہ وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ مزید تفصیلات جنگ موتہ کے ذکر میں آئیں گی۔ ہوا یہ تھا کہ ۸ھ میں آپؐ نے غزوۂ موتہ کے لئے ایک لشکر روانہ کیا۔ زید بن حارثہ کو اس کا سردار مقرر کیا‘ فرمایا اگر وہ شہید ہو جائیں تو جعفر کو سردار بنانا‘ اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہ کو۔ اتفاق سے یکے بعد دیگرے یہ تینوں سردار شہید ہوگئے اور خالد بن ولید نے آخر میں افسری جھنڈا اٹھا لیا تاکہ مسلمان ہمت نہ ہاریں کیونکہ لڑائی سخت ہو رہی تھی۔ گو ان کے لئے آنحضرتﷺ نے کچھ نہیں فرمایا تھا۔ آپؐ کافروں سے یہاں تک لڑے کہ اللہ نے آپ کے ذریعہ اسلام کے لشکر کو فتح نصیب فرمائی۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے خوش ہو کر خالد کے حق میں فرمایا کہ وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ مزید تفصیلات جنگ موتہ کے ذکر میں آئیں گی۔