‌صحيح البخاري - حدیث 2789

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ الدُّعَاءِ بِالْجِهَادِ وَالشَّهَادَةِ لِلرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ فَتُطْعِمُهُ - وَكَانَتْ أُمُّ حَرَامٍ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ - فَدَخَلَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَطْعَمَتْهُ وَجَعَلَتْ تَفْلِي رَأْسَهُ، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَمَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا البَحْرِ مُلُوكًا عَلَى الأَسِرَّةِ، أَوْ: مِثْلَ المُلُوكِ عَلَى الأَسِرَّةِ ، شَكَّ إِسْحَاقُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهمْ، فَدَعَا لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقُلْتُ: وَمَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ» - كَمَا قَالَ فِي الأَوَّلِ - قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: «أَنْتِ مِنَ الأَوَّلِينَ»، فَرَكِبَتِ البَحْرَ فِي زَمَانِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ البَحْرِ، فَهَلَكَتْ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2789

کتاب: جہاد کا بیان باب : جہاد اور شہادت کے لئے مرد اور عورت دونوں کا دعاکرنا ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا امام مالک سے‘ انہوں نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا‘ آپ بیان کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لے جایا کرتے تھے ( یہ انس کی خالہ تھیں جو عبادہ بن صامت کے نکاح میں تھیں ) ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر سے جوئیں نکالنے لگیں‘ اس عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوگئے‘ جب بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے ۔ ام حرام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کس بات پر آپ ہنس رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کے راستے میں غزوہ کرنے کے لئے دریا کے بیچ میں سوار اس طرح جارہے ہیں جس طرح بادشاہ تخت پرہوتے ہیں یا جیسے بادشاہ تخت رواں پر سوار ہوتے ہیں یہ شک اسحاق راوی کو تھا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایئے کہ اللہ مجھے بھی انہیں میں سے کردے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کےلئے دعا فرمائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر رکھ کر سوگئے‘ اس مرتبہ بھی آپ بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے ۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کس بات پر آپ ہنس رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کی راہ میں غزوہ کے لئے جا رہے ہیں پہلے کی طرح‘ اس مرتبہ بھی فرمایا انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے میرے لئے دعا کیجئے کہ مجھے بھی انہیں میں سے کردے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تو سب سے پہلی فوج میں شامل ہوگی ( جو بحری راستے سے جہاد کرے گی ) چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ام حرام رضی اللہ عنہ نے بحری سفر کیا پھر جب سمندر سے باہر آئیں تو ان کی سواری نے انہیں نیچے گرادیا اوراسی حادثہ میں ان کی وفات ہوگئی ۔
تشریح : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس وقت مصر کے گورنر تھے اور عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور تھا‘ جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپؐ سے روم پر لشکر کشی کی اجازت مانگی اور اجازت مل جانے پر مسلمانوں کا سب سے پہلا بحری بیڑا تیار ہوا جس نے روم کے خلاف جنگ کی۔ ام حرام رضی اللہ عنہا بھی اپنے شوہر کے ساتھ اس لڑائی میں شریک تھیں اور اس طرح آنحضرتؐ کی پیشین گوئی کے مطابق مسلمانوں کی سب سے پہلی بحری جنگ میں شریک ہو کر شہید ہوئیں۔ فرضی اللہ عنہا۔ شہادت کا وقوع اس وقت ہوا جب مسلمان جہاد سے لوٹ کر آرہے تھے‘ گو ام حرام خود نہیں لڑیں مگر اللہ کی راہ میں نکلی اور نص قرآن و حدیث کی رو سے جو کوئی جہاد کے لئے نکلے اور راہ میں اپنی موت سے مر جائے وہ بھی شہید ہے۔ پس ام حرام کو شہادت نصیب ہوئی اور اس طرح دعائے نبوی کا ظہور ہوا۔ حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا آپؐ کی دودھ کی خالہ ہوتی ہیں‘ اسی لئے آپؐ ان کے ہاں آیا جایا کرتے تھے‘ وہ بھی آپؐ کے لئے ماں سے بھی زیادہ شفیق تھیں‘ (رضی اللہ عنہا) روایت سے عورتوں کا جہاد میں شریک ہونا ثابت ہوا۔ حضرت امام بخاریؒ کا مطلب یہ ہے کہ جیسے مرد یہ دعا کرسکتا ہے یا اللہ مجھ کو تو مجاہدین میں کر‘ مجھ کو شہادت نصیب کر‘ ایسے ہی عورت بھی یہ دعا کرسکتی ہے۔ آنحضرتﷺ کے زمانے میں اور اس کے بعد خلفائے راشدین کے زمانوں میں بھی عورتیں مجاہدین کے ہمراہ رہی ہیں۔ ان کے کھانے پینے‘ زخم پٹی کرنے کی خدمات عورتوں نے انجام دی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ دعا قبول ہوئی اور آپ مدینہ میں ابولولو مجوسی کے ہاتھ سے شہید ہوئے تھے (رضی اللہ عنہ وارضاہ) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس وقت مصر کے گورنر تھے اور عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور تھا‘ جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپؐ سے روم پر لشکر کشی کی اجازت مانگی اور اجازت مل جانے پر مسلمانوں کا سب سے پہلا بحری بیڑا تیار ہوا جس نے روم کے خلاف جنگ کی۔ ام حرام رضی اللہ عنہا بھی اپنے شوہر کے ساتھ اس لڑائی میں شریک تھیں اور اس طرح آنحضرتؐ کی پیشین گوئی کے مطابق مسلمانوں کی سب سے پہلی بحری جنگ میں شریک ہو کر شہید ہوئیں۔ فرضی اللہ عنہا۔ شہادت کا وقوع اس وقت ہوا جب مسلمان جہاد سے لوٹ کر آرہے تھے‘ گو ام حرام خود نہیں لڑیں مگر اللہ کی راہ میں نکلی اور نص قرآن و حدیث کی رو سے جو کوئی جہاد کے لئے نکلے اور راہ میں اپنی موت سے مر جائے وہ بھی شہید ہے۔ پس ام حرام کو شہادت نصیب ہوئی اور اس طرح دعائے نبوی کا ظہور ہوا۔ حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا آپؐ کی دودھ کی خالہ ہوتی ہیں‘ اسی لئے آپؐ ان کے ہاں آیا جایا کرتے تھے‘ وہ بھی آپؐ کے لئے ماں سے بھی زیادہ شفیق تھیں‘ (رضی اللہ عنہا) روایت سے عورتوں کا جہاد میں شریک ہونا ثابت ہوا۔ حضرت امام بخاریؒ کا مطلب یہ ہے کہ جیسے مرد یہ دعا کرسکتا ہے یا اللہ مجھ کو تو مجاہدین میں کر‘ مجھ کو شہادت نصیب کر‘ ایسے ہی عورت بھی یہ دعا کرسکتی ہے۔ آنحضرتﷺ کے زمانے میں اور اس کے بعد خلفائے راشدین کے زمانوں میں بھی عورتیں مجاہدین کے ہمراہ رہی ہیں۔ ان کے کھانے پینے‘ زخم پٹی کرنے کی خدمات عورتوں نے انجام دی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ دعا قبول ہوئی اور آپ مدینہ میں ابولولو مجوسی کے ہاتھ سے شہید ہوئے تھے (رضی اللہ عنہ وارضاہ)