‌صحيح البخاري - حدیث 2778

كِتَابُ الوَصَايَا بَابُ إِذَا وَقَفَ أَرْضًا أَوْ بِئْرًا، وَاشْتَرَطَ لِنَفْسِهِ مِثْلَ دِلاَءِ المُسْلِمِينَ صحيح وَقَالَ عَبْدَانُ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ حُوصِرَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ، وَقَالَ: أَنْشُدُكُمُ اللَّهَ، وَلاَ أَنْشُدُ إِلَّا أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ حَفَرَ رُومَةَ فَلَهُ الجَنَّةُ»؟ فَحَفَرْتُهَا، أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ قَالَ: «مَنْ جَهَّزَ جَيْشَ العُسْرَةِ فَلَهُ الجَنَّةُ»؟ فَجَهَّزْتُهُمْ، قَالَ: فَصَدَّقُوهُ بِمَا قَالَ وَقَالَ عُمَرُ فِي وَقْفِهِ: «لاَ جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهُ أَنْ يَأْكُلَ وَقَدْ يَلِيهِ الوَاقِفُ وَغَيْرُهُ فَهُوَ وَاسِعٌ لِكُلٍّ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2778

کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان باب : کسی نے کنواں وقف کیا اور اپنے لئے بھی اس میں سے عام مسلمانوں کی طرح پانی لینے کی شرط لگائی۔۔۔ عبدان نے بیان کیا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی’ انہیں شعبہ نے‘ انہیں ابو اسحاق نے‘ انہیں ابو عبدالرحمٰن نے کہ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ محاصرے میں لئے گئے تو ( اپنے گھر کے ) اوپر چڑھ کر آپ نے باغیوں سے فرمایا میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے قسمیہ پوچھتا ہوں کہ کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بیئر رومہ کو کھودے گا اور اسے مسلمانوں کے لئے وقف کر دے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے تو میں نے ہی اس کنویں کو کھودہ تھا۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرمایا تھا کہ جیش عسرت ( غزوئہ تبوک پر جانے والے لشکر ) کو جو شخص سازوسامان سے لیس کر دے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے تو میں نے ہی اسے مسلح کیا تھا ۔ راوی نے بیان کیا کہ آپ کی ان باتوں کی سب نے تصدیق کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے وقف کے متعلق فرمایا تھا کہ اس کا منتظم اگراس میں سے کھائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ منتظم خود واقف بھی ہو سکتا ہے اور کبھی دوسرے بھی ہو سکتے ہیں اور ہر ایک کے لئے یہ جائز ہے۔
تشریح : یعنی کسی نے اپنے وقف سے خود بھی فائدہ اٹھانے کی شرط لگائی تو اس میں کوئی ہرج نہیں ۔ ابن بطال نے کہا کہ اس مسئلے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں کہ اگر کسی نے کوئی چیز وقف کرتے ہوئے اس کے منافع سے خود یا اپنے رشتہ داروں کے نفع ( اٹھانے ) کی بھی شرط لگائی تو جائز ہے مثلاً کسی نے کوئی کنواں وقف کیا اور شرط لگالی کہ عام مسلمانوں کی طرح میں بھی اس میں سے پانی پیا کروں گا تو وہ پانی بھی لے سکتا ہے اور اس کی یہ شرط جائز ہوگی۔ حضرت زبیر بن عوام کے اثر کو دارمی نے اپنی مسند میں وصل کیا ہے۔ آپ خاوند والی بیٹی کو اس میں رہنے کی اس لئے اجازت نہ دیتے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر میں رہ سکتی ہے یہ اثر ترجمہ باب سے اس طرح مطابق ہوتا ہے کہ کوئی بیٹی ان کی کنواری بھی ہوگی اور صحبت سے پہلے اس کو طلاق دی گئی ہوگی تو اس کا خرچہ باپ کے ذمہ ہے اس کا رہنا گویا خو د باپ کا وہاں رہنا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کو ابن سعد نے وصل کیا ہے‘ یہ وہ گھر تھا جس کو عمر رضی اللہ عنہ وقف کر گئے تھے تو اثر ترجمہ باب کے مطابق ہوگیا۔ عبدان امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ تھے تو یہ تعلیق نہ ہوگی اور دار قطنی اور اسماعیل نے اس کو وصل بھی کیا ہے۔ دوسری روایتوں میں یوں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ کنواں خرید کر کے وقف کیا تھا‘ کھدوانا مذکور نہیں ہے لیکن شاید حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو کچھ وسیع کرنے کے لئے کھدوایا بھی ہو۔ یہ روایت لاکر امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جس کو ترمذی نے نکالا۔ اس میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی رومہ کا کنواں خرید لے اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اپنا ڈول بھی اس میں ڈالے اس کو بہشت میں اس بھی عمدہ کنواں ملے گا۔ نسائی کی روایت میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ کنواں بیس ہزاریاپچیس ہزار میں خریدا تھا۔ مذکور جیش عسرۃ یعنی تنگی کا لشکر جس سے مراد وہ لشکر ہے جو جنگ تبوک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گیا تھا‘ اس جنگ کا سامان مسلمانوں کے پاس بالکل نہ تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر سب سامان اپنی ذات سے فراہم کردیا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی زیادہ اظہار مسرت فرماتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لئے زندہ جنتی ہونے کی بشارت پیش فرمائی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب اپنی آزمائش کے دنوں میں صحابہ کرام کو اس طرح مخاطب فرمایا جو اثر میں مذکور ہے تو بیشتر صحابہ نے آ پ کی تصدیق کی اور گواہی دی جن میں حضرت علی، طلحہ، زبیر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم پیش پیش تھے۔ اس حدیث کے ذیل میں حضرت عثمان کے مناقب سے متعلق حافظ ابن حجر رضی اللہ عنہ نے کئی ایک احادیث کو نقل کیا ہے الحتیاج الی ذلک لدفع مضرۃ اوتحصل منفعۃ وانما یکرہ ذلک عندالمفاخرۃ والکاثرۃ والعجب ( فتح ) یعنی اس سے اس امر کا جواز ثابت ہوا کہ کسی نقصان کو دفع کرنے یا کوئی نفع حاصل کرنے کے لئے آدمی خود اپنے مناقب بیان کر سکتا ہے، لیکن فخر اور خود پسندی کے طور پر ایسا کرنا مکروہ ہے۔ یعنی کسی نے اپنے وقف سے خود بھی فائدہ اٹھانے کی شرط لگائی تو اس میں کوئی ہرج نہیں ۔ ابن بطال نے کہا کہ اس مسئلے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں کہ اگر کسی نے کوئی چیز وقف کرتے ہوئے اس کے منافع سے خود یا اپنے رشتہ داروں کے نفع ( اٹھانے ) کی بھی شرط لگائی تو جائز ہے مثلاً کسی نے کوئی کنواں وقف کیا اور شرط لگالی کہ عام مسلمانوں کی طرح میں بھی اس میں سے پانی پیا کروں گا تو وہ پانی بھی لے سکتا ہے اور اس کی یہ شرط جائز ہوگی۔ حضرت زبیر بن عوام کے اثر کو دارمی نے اپنی مسند میں وصل کیا ہے۔ آپ خاوند والی بیٹی کو اس میں رہنے کی اس لئے اجازت نہ دیتے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر میں رہ سکتی ہے یہ اثر ترجمہ باب سے اس طرح مطابق ہوتا ہے کہ کوئی بیٹی ان کی کنواری بھی ہوگی اور صحبت سے پہلے اس کو طلاق دی گئی ہوگی تو اس کا خرچہ باپ کے ذمہ ہے اس کا رہنا گویا خو د باپ کا وہاں رہنا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کو ابن سعد نے وصل کیا ہے‘ یہ وہ گھر تھا جس کو عمر رضی اللہ عنہ وقف کر گئے تھے تو اثر ترجمہ باب کے مطابق ہوگیا۔ عبدان امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ تھے تو یہ تعلیق نہ ہوگی اور دار قطنی اور اسماعیل نے اس کو وصل بھی کیا ہے۔ دوسری روایتوں میں یوں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ کنواں خرید کر کے وقف کیا تھا‘ کھدوانا مذکور نہیں ہے لیکن شاید حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو کچھ وسیع کرنے کے لئے کھدوایا بھی ہو۔ یہ روایت لاکر امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جس کو ترمذی نے نکالا۔ اس میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی رومہ کا کنواں خرید لے اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اپنا ڈول بھی اس میں ڈالے اس کو بہشت میں اس بھی عمدہ کنواں ملے گا۔ نسائی کی روایت میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ کنواں بیس ہزاریاپچیس ہزار میں خریدا تھا۔ مذکور جیش عسرۃ یعنی تنگی کا لشکر جس سے مراد وہ لشکر ہے جو جنگ تبوک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گیا تھا‘ اس جنگ کا سامان مسلمانوں کے پاس بالکل نہ تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر سب سامان اپنی ذات سے فراہم کردیا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی زیادہ اظہار مسرت فرماتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لئے زندہ جنتی ہونے کی بشارت پیش فرمائی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب اپنی آزمائش کے دنوں میں صحابہ کرام کو اس طرح مخاطب فرمایا جو اثر میں مذکور ہے تو بیشتر صحابہ نے آ پ کی تصدیق کی اور گواہی دی جن میں حضرت علی، طلحہ، زبیر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم پیش پیش تھے۔ اس حدیث کے ذیل میں حضرت عثمان کے مناقب سے متعلق حافظ ابن حجر رضی اللہ عنہ نے کئی ایک احادیث کو نقل کیا ہے الحتیاج الی ذلک لدفع مضرۃ اوتحصل منفعۃ وانما یکرہ ذلک عندالمفاخرۃ والکاثرۃ والعجب ( فتح ) یعنی اس سے اس امر کا جواز ثابت ہوا کہ کسی نقصان کو دفع کرنے یا کوئی نفع حاصل کرنے کے لئے آدمی خود اپنے مناقب بیان کر سکتا ہے، لیکن فخر اور خود پسندی کے طور پر ایسا کرنا مکروہ ہے۔