كِتَابُ الوَصَايَا بَابُ الوَقْفِ لِلْغَنِيِّ وَالفَقِيرِ وَالضَّيْفِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَجَدَ مَالًا بِخَيْبَرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ قَالَ: «إِنْ شِئْتَ تَصَدَّقْتَ بِهَا»، فَتَصَدَّقَ بِهَا فِي الفُقَرَاءِ وَالمَسَاكِينِ وَذِي القُرْبَى وَالضَّيْفِ
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
باب : مالدار محتاج اور مہمان سب پر وقف کر سکتا ہے
ہم سے ابو عاصم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا‘ ان سے نافع نے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک جائداد ملی تو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کے متعلق خبر دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاہو تو اسے صدقہ کردو۔ چنانچہ آپ نے فقراء‘مساکین‘ رشتہ داروں اور مہمانوں کے لئے اسے صدقہ کردیا۔
تشریح :
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں فیہ جواز الوقف علی الاغنیاء لان ذوی القربی والضیف لم یقید بالحاجۃ وھوالاصح عند الشافعیہ ( فتح ) یعنی اس سے اغنیاءپر وقف کرنے کا جواز نکلا‘ اس لئے کہ قرابتداروں اور مہمانوں کے لئے حاجت مند ہونے کی قید نہیں لگائی اور شافعیہ کے نزدیک یہی صحیح مسلک ہے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں فیہ جواز الوقف علی الاغنیاء لان ذوی القربی والضیف لم یقید بالحاجۃ وھوالاصح عند الشافعیہ ( فتح ) یعنی اس سے اغنیاءپر وقف کرنے کا جواز نکلا‘ اس لئے کہ قرابتداروں اور مہمانوں کے لئے حاجت مند ہونے کی قید نہیں لگائی اور شافعیہ کے نزدیک یہی صحیح مسلک ہے۔