كِتَابُ الوَصَايَا بَابُ إِذَا أَوْقَفَ جَمَاعَةٌ أَرْضًا مُشَاعًا فَهُوَ جَائِزٌ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ [ص:12]، قَالَ: أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ المَسْجِدِ، فَقَالَ: «يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ هَذَا»، قَالُوا: لاَ وَاللَّهِ لاَ نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَى اللَّهِ
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
باب : اگر کئی آدمیوں نے اپنی مشترک زمین جو مشاع تھی ( تقسیم نہیں ہوتی تھی ) وقف کردی تو جائز ہے
ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا‘ ان سے ابو التیاح یزید بن حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے‘ انہوں نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مدینہ میں ) مسجد بنانے کا حکم دیا اور بنی نجار سے فرمایا تم اپنے اس باغ کا مجھ سے مول کرلو۔ انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں خدا کی قسم ہم تو اللہ ہی سے اس کا مول لیں گے۔
تشریح :
گویا نجار نے اپنی مشترکہ زمین مسجد کیلئے وقف کردی تو باب کا مطلب نکل آیا لیکن ابن سعد نے طبقات میں واقدی سے یوں روایت کی ہے کہ آپ نے یہ زمین دس دینار میں خریدی اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قیمت ادا کی۔ اس صورت میں بھی باب کا مقصد نکل آئے گا اس طرف سے کہ پہلے بنی نجار نے اس کو وقف کرنا چاہا اور آپ نے اس پر انکار نہ کیا۔ واقدی کی روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے قیمت اسلئے دی کہ دو یتیم بچوں کا بھی اس میں حصہ تھا ( وحیدی ) یہ حدیث ابواب الجنائز میں بھی گزر چکی ہے۔
گویا نجار نے اپنی مشترکہ زمین مسجد کیلئے وقف کردی تو باب کا مطلب نکل آیا لیکن ابن سعد نے طبقات میں واقدی سے یوں روایت کی ہے کہ آپ نے یہ زمین دس دینار میں خریدی اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قیمت ادا کی۔ اس صورت میں بھی باب کا مقصد نکل آئے گا اس طرف سے کہ پہلے بنی نجار نے اس کو وقف کرنا چاہا اور آپ نے اس پر انکار نہ کیا۔ واقدی کی روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے قیمت اسلئے دی کہ دو یتیم بچوں کا بھی اس میں حصہ تھا ( وحیدی ) یہ حدیث ابواب الجنائز میں بھی گزر چکی ہے۔