‌صحيح البخاري - حدیث 2767

كِتَابُ الوَصَايَا بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: صحيح وَقَالَ لَنَا سُلَيْمَانُ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: مَا رَدَّ ابْنُ عُمَرَ عَلَى أَحَدٍ وَصِيَّةً وَكَانَ ابْنُ سِيرِينَ أَحَبَّ الأَشْيَاءِ إِلَيْهِ فِي مَالِ اليَتِيمِ أَنْ يَجْتَمِعَ إِلَيْهِ نُصَحَاؤُهُ وَأَوْلِيَاؤُهُ، فَيَنْظُرُوا الَّذِي هُوَ خَيْرٌ لَهُ وَكَانَ طَاوُسٌ: إِذَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ اليَتَامَى قَرَأَ [ص:11]: {وَاللَّهُ يَعْلَمُ المُفْسِدَ مِنَ المُصْلِحِ} [البقرة: 220] وَقَالَ عَطَاءٌ فِي يَتَامَى الصَّغِيرِ وَالكَبِيرِ: «يُنْفِقُ الوَلِيُّ عَلَى كُلِّ إِنْسَانٍ بِقَدْرِهِ مِنْ حِصَّتِهِ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2767

کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان باب : سورۃ نساء میں اللہ کا یہ ارشاد کہ اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو . . . اور امام بخاری نے کہا کہ ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا‘ ان سے حماد بن اسامہ نے بیان کیا‘ ان سے ایوب نے‘ ان سے نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی وصی بناتا تو وہ کبھی انکار نہ کرتے ۔ ابن سیرین تابعی رحمہ اللہ کا محبوب مشغلہ یہ تھا کہ یتیم کے مال و جائداد کے سلسلے میں ان کے خیرخواہوں اور ولیوں کو جمع کرتے تاکہ ان کے لئے کوئی اچھی صورت پیدا کرنے کے لئے غور کریں۔ طاؤس تابعی رحمہ اللہ سے جب یتیموں کے بارے میں کوئی سوال کیا جاتا تو آپ یہ آیت پڑھتے کہ ” اوراللہ فساد پیدا کرنے والے اور سنوارنے والے کو خوب جانتا ہے۔ “ عطاء رحمہ اللہ نے یتیموں کے بارے میں کہا خواہ وہ معمولی قسم کے لوگوں میں ہوں یا بڑے درجے کے‘ اس کا ولی اس کے حصہ میں سے جیسے اس کے لائق ہو، ویسا اس پر خرچ کرے۔
تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا قول وقال لنا سلیمان حدثنا حماد الخ یہ حدیث موصول ہے معلق نہیں ہے کیونکہ سلیمان بن حرب امام بخاری رحمہ اللہ کے شیوخ میں سے ہیں اور تعجب ہے عینی سے کہ انہوں نے حافظ ابن حجرپر یہ اعتراض جمایا کہ اس حدیث کا موصول کرنا کسی لفظ سے نہیں پایا جاتا حالانکہ اس میں صاف قال لناکے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاری نے سلیمان سے سنا اور یہ امام بخاری کا کمال احتیاط ہے کہ انہوں نے ایسے مقاما ت پر حدثنا یا اخبرنا کا لفظ استعمال نہیں فرمایا کیونکہ سلیمان نے امام بخاری کو یہ روایت بطور تحدیث کے نہ سنائی ہوگی بلکہ وہ کسی اور سے مخاطب ہوں گے اور امام بخاری نے سن لیا ہوگا ( وحیدی ) حدیث موصول یا متصل و معلق کی تعریف شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے لفظوں میں یہ ہے۔ فان لم یسقط راومن الرواۃ من البین فالحدیث متصل ویسمی عدم السقوط اتصالا وان سقط واحداواکثر فالحدیث منقطع وھذا السقوط انقطاع والسقوط اما ان یکون من اول السند ویسمی معلقاً وھذا الاسقاط تعلیقاً والساقط قد یکون واحداو قد یکون اکثر وقد یحذف تمام السند کماہو عادۃ المصنفین یقولون قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والتعلیقات کثیرۃ فی تراجم صحیح البخاری ولھا حکم الا تصال لا نہ التزم فی ھذا الکتاب ان لایاتی الا بالصحیح ( مقدمۃ مشکٰوۃ ) یعنی سند کے راویوں میں سے کوئی راوی ساقط نہ ہو‘ اس حدیث کو متصل ( یاموصول ) کہیں گے اور اس عدم سقوط کو دوسرا نام اتصال کا دیا گیا ہے اور اگر کوئی ایک راوی یا زیادہ ساقط ہوں پس وہ حدیث منقطع ہے اس سقوط کو انقطاع کہتے ہیں۔ کبھی سقوط راوی سند میں سے ہوتا ہے‘ ایسی حدیث کو معلق کہتے ہیں اور اس اسقاط کو تعلیق کہتے ہیں‘ ساقط کبھی ایک راوی ہوتاہے کبھی زیادہ جیسا کہ مصّنفین کی عادت ہے کہ وہ بغیر سند بیان کئے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیتے ہیں اور اس قسم کی تعلیقات صحیح بخاری کے ابواب میں بکثرت ہیں اور ان سب کے لئے اتصال ہی کا حکم ہے کیونکہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے التزام کیا ہوا ہے کہ وہ اس کتاب میں صرف صحیح احادیث و آثار ہی کو نقل کریں گے۔ ترجمۃ الباب میں مذکورہ آیت شریفہ ( ويسئلونک عن اليتمي ) ( البقرہ: 220 ) کا شان نزول یہ ہے کہ جب آیت ( ولا تقربوا مال اليتيم ) الخ ( انعال: 152 ) نازل ہوئی تو لوگوں نے خوف کے مارے یتیموں کا کھانا پینا سب بالکل الگ کردیا پس جو کچھ بچ جاتا تو خراب ہوجاتا‘ یہ امر بہت مشکل ہواتو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں اس مشکل کا ذکر کیا ۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور بتلایا گیا کہ ان کو اپنے ساتھ ہی کھلاؤ پلاؤ‘ ان کے مال کی حفاظت کرو‘ اگر تمہاری نیت درست ہوگی تو اللہ خوب جانتا ہے۔ ( و اللہ یعلم المفسد من المصلح ) ( بقرہ: 220 ) حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا قول وقال لنا سلیمان حدثنا حماد الخ یہ حدیث موصول ہے معلق نہیں ہے کیونکہ سلیمان بن حرب امام بخاری رحمہ اللہ کے شیوخ میں سے ہیں اور تعجب ہے عینی سے کہ انہوں نے حافظ ابن حجرپر یہ اعتراض جمایا کہ اس حدیث کا موصول کرنا کسی لفظ سے نہیں پایا جاتا حالانکہ اس میں صاف قال لناکے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاری نے سلیمان سے سنا اور یہ امام بخاری کا کمال احتیاط ہے کہ انہوں نے ایسے مقاما ت پر حدثنا یا اخبرنا کا لفظ استعمال نہیں فرمایا کیونکہ سلیمان نے امام بخاری کو یہ روایت بطور تحدیث کے نہ سنائی ہوگی بلکہ وہ کسی اور سے مخاطب ہوں گے اور امام بخاری نے سن لیا ہوگا ( وحیدی ) حدیث موصول یا متصل و معلق کی تعریف شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے لفظوں میں یہ ہے۔ فان لم یسقط راومن الرواۃ من البین فالحدیث متصل ویسمی عدم السقوط اتصالا وان سقط واحداواکثر فالحدیث منقطع وھذا السقوط انقطاع والسقوط اما ان یکون من اول السند ویسمی معلقاً وھذا الاسقاط تعلیقاً والساقط قد یکون واحداو قد یکون اکثر وقد یحذف تمام السند کماہو عادۃ المصنفین یقولون قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والتعلیقات کثیرۃ فی تراجم صحیح البخاری ولھا حکم الا تصال لا نہ التزم فی ھذا الکتاب ان لایاتی الا بالصحیح ( مقدمۃ مشکٰوۃ ) یعنی سند کے راویوں میں سے کوئی راوی ساقط نہ ہو‘ اس حدیث کو متصل ( یاموصول ) کہیں گے اور اس عدم سقوط کو دوسرا نام اتصال کا دیا گیا ہے اور اگر کوئی ایک راوی یا زیادہ ساقط ہوں پس وہ حدیث منقطع ہے اس سقوط کو انقطاع کہتے ہیں۔ کبھی سقوط راوی سند میں سے ہوتا ہے‘ ایسی حدیث کو معلق کہتے ہیں اور اس اسقاط کو تعلیق کہتے ہیں‘ ساقط کبھی ایک راوی ہوتاہے کبھی زیادہ جیسا کہ مصّنفین کی عادت ہے کہ وہ بغیر سند بیان کئے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیتے ہیں اور اس قسم کی تعلیقات صحیح بخاری کے ابواب میں بکثرت ہیں اور ان سب کے لئے اتصال ہی کا حکم ہے کیونکہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے التزام کیا ہوا ہے کہ وہ اس کتاب میں صرف صحیح احادیث و آثار ہی کو نقل کریں گے۔ ترجمۃ الباب میں مذکورہ آیت شریفہ ( ويسئلونک عن اليتمي ) ( البقرہ: 220 ) کا شان نزول یہ ہے کہ جب آیت ( ولا تقربوا مال اليتيم ) الخ ( انعال: 152 ) نازل ہوئی تو لوگوں نے خوف کے مارے یتیموں کا کھانا پینا سب بالکل الگ کردیا پس جو کچھ بچ جاتا تو خراب ہوجاتا‘ یہ امر بہت مشکل ہواتو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں اس مشکل کا ذکر کیا ۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور بتلایا گیا کہ ان کو اپنے ساتھ ہی کھلاؤ پلاؤ‘ ان کے مال کی حفاظت کرو‘ اگر تمہاری نیت درست ہوگی تو اللہ خوب جانتا ہے۔ ( و اللہ یعلم المفسد من المصلح ) ( بقرہ: 220 )