كِتَابُ الوَصَايَا بَابُ وَمَا لِلوَصِيِّ أَن يَّعمَلَ فِي مَالِ اليَتِيمِ وَمَا يَأكُلُ مِنهُ بِقَدرِ عُمَالَتِهِ صحيح حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: {وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ، وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ} [النساء: 6]، قَالَتْ: «أُنْزِلَتْ فِي وَالِي اليَتِيمِ أَنْ يُصِيبَ مِنْ مَالِهِ إِذَا كَانَ مُحْتَاجًا بِقَدْرِ مَالِهِ بِالْمَعْرُوفِ»
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
باب : وصی کے لئے یتیم کے مال میں تجارت اور محنت کرنا درست ہے اور پھر محنت کے مطابق اس میں سے کھالینا درست ہے
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا ہشام سے‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہ نے ( قرآن مجید کی اس آیت ) ” اورجو شخص مالدار ہو وہ اپنے کو یتیم کے مال سے بالکل روکے رکھے‘ البتہ جو شخص نادار ہو تو وہ دستور کے مطابق کھا سکتا ہے “ کے بارے میں فرمایا کہ یتیموں کے ولیوں کے بارے میں نازل ہوئی کہ یتیم کے مال میں سے اگر ولی نادار ہو تو دستور کے مطابق اس کے مال میں سے لے سکتا ہے۔
تشریح :
اس حدیث سے باب کا پہلا حصہ یعنی یتیموں کے مال میں نیک نیتی سے تجارت کرنا‘ پھر اپنی محنت کے مطابق اس میں سے کھانا درست ہے۔
اس حدیث سے باب کا پہلا حصہ یعنی یتیموں کے مال میں نیک نیتی سے تجارت کرنا‘ پھر اپنی محنت کے مطابق اس میں سے کھانا درست ہے۔