كِتَابُ الوَصَايَا بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ لِمَنْ تُوُفِّيَ فُجَاءَةً أَنْ يَتَصَدَّقُوا عَنْهُ، وَقَضَاءِ النُّذُورِ عَنِ المَيِّتِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَأُرَاهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ قَالَ: «نَعَمْ تَصَدَّقْ عَنْهَا»
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
باب : اگر کسی کو اچانک موت آجائے تو اس کی طرف سے خیرات کرنا مستحب ہے اور میت کی نذروں کو پوری کرنا
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیا ن کیا‘ کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا‘ ان سے ہشام نے‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک صحابی ( سعد بن عبادہ ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میری والدہ کی موت اچانک واقع ہوگئی‘ میرا خیال ہے کہ اگر انہں گفتگوکاموقع ملتاتو وہ صدقہ کرتیں توکیا میں ان کی طرف سے خیرات کرسکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ان کی طرف سے خیرات کر۔
تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ورثاءکی طرف سے میت کو خیرات اورصدقے کا ثواب پہنچتا ہے۔ اہلحدیث کا اس پر اتفاق ہے لیکن معتزلہ نے اس کا انکار کیا ہے۔ دوسری روایت میں ہے سعد نے پوچھا کونسی خیرات افضل ہے‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانی پلانا۔ اس کوامام نسائی نے روایت کیا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ورثاءکی طرف سے میت کو خیرات اورصدقے کا ثواب پہنچتا ہے۔ اہلحدیث کا اس پر اتفاق ہے لیکن معتزلہ نے اس کا انکار کیا ہے۔ دوسری روایت میں ہے سعد نے پوچھا کونسی خیرات افضل ہے‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانی پلانا۔ اس کوامام نسائی نے روایت کیا ہے۔