كِتَابُ الوَصَايَا بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَإِذَا حَضَرَ القِسْمَةَ أُولُو القُرْبَى، وَاليَتَامَى وَالمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ} صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الفَضْلِ أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: إِنَّ نَاسًا يَزْعُمُونَ أَنَّ هَذِهِ الآيَةَ نُسِخَتْ، وَلاَ وَاللَّهِ مَا نُسِخَتْ، وَلَكِنَّهَا مِمَّا تَهَاوَنَ النَّاسُ، هُمَا وَالِيَانِ، وَالٍ يَرِثُ وَذَاكَ الَّذِي يَرْزُقُ، وَوَالٍ لاَ يَرِثُ، فَذَاكَ الَّذِي يَقُولُ بِالْمَعْرُوفِ، يَقُولُ: لاَ أَمْلِكُ لَكَ أَنْ أُعْطِيَكَ
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
باب :
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا ابو بشر جعفر سے ‘ ان سے سعید بن جبیر نے اوران سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کچھ لوگ گمان کرنے لگے ہیں کہ یہ آیت ( جس ذکر عنوان میں ہوا ) میراث کی آیت منسوخ ہوگئی ہے‘ نہیں قسم اللہ کی آیت منسوخ نہیں ہوئی البتہ لوگ اس پر عمل کرنے میں سست ہوگئے ہیں۔ ترکے کے لینے والے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو جو خود وارث ہوں اس کو تو چٹانے کا حکم ہے ( عزیزوں‘ یتیموں اور محتاجوں کو جو تقسیم کے وقت آجائیں ) دوسرا جو خود وارث نہیں ہواس کو نرمی سے جواب دینے کا حکم ہے‘ وہ یوں کہے میاں میں تم کو دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔
تشریح :
سند میں مذکور حضرت سعید بن جبیر اسدی کوفی ہیں‘ جلیل القدر تابعین میں سے ایک یہ بھی ہیں۔ انہوں نے ابو مسعود‘ ابن عباس‘ ابن عمر ابن زبیر اور انس رضی اللہ عنہ سے علم حاصل کیا اور ان سے بہت سے لوگوں نے۔ ماہ شعبان 95 ھ میں جبکہ ان کی عمر انچاس سال کی تھی‘ حجاج بن یوسف نے ان کو قتل کرایا اور خود حجاج رمضان میں مرا اور بعض کے نزدیک اسی سال شوال میں اور یوں بھی کہتے ہیں کہ ان کی شہادت کے چھ ماہ بعد مرا۔ اس کے بعد حجاج کسی کے قتل پر قادر نہ ہوا۔ کیونکہ سعید نے اس کے لئے دعا کی تھی جبکہ حجاج ان سے مخاطب ہو کر بولا کہ بتاؤ تم کو کس طرح قتل کیا جائے میں تم کو اسی طرح قتل کروں گا۔ سعید بولے کہ اے حجاج! تو اپنا قتل ہونا جس طرح چاہے وہ بتلا، اس لئے کہ خدا کی قسم جس طرح تو مجھ کو قتل کرے گا اسی طرح آخرت میں میں تجھ کو قتل کروں گا۔ حجاج بولا کیا تم چاہتے ہو کہ میں تم کو معاف کردوں۔ بولے کہ اگر عفو واقع ہوا تو وہ اللہ کی طرف سے ہوگا اور تیرے لئے اس میں کوئی برات و عذر نہیں۔ حجاج یہ سن کر بولاکہ ان کو لے جاؤ اور قتل کر ڈالو۔ پس جب ان کو دروازہ سے باہر نکالا تو یہ ہنس پڑے۔ اس کی اطلاع حجاج کو پہنچائی گئی تو حکم دیا کہ ان کو واپس لاؤ۔ لہٰذا واپس لایا گیا تو ان سے پوچھا کہ اب ہنسنے کا کیا سبب تھا۔ بولے کہ مجھ کو اللہ کے مقابلے میں تیری بے باکی اور اللہ تعالیٰ کی تیرے مقابل میں حلم وبردباری پر تعجب ہوتا ہے۔ حجاج نے یہ سن کر حکم دیا کہ کھال بچھائی جائے تو بچھائی گئی پھرحکم دیا کہ ان کو قتل کردیا جائے۔ اس کے بعد سعید بن جبیر نے فرمایا کہ ( وجھت وجھي للذي الخ ) ( الانعام : 79 ) یعنی میں نے اپنا رخ سب سے موڑ کر اس خدا کی طرف کرلیا ہے کہ جو خالق آسمان و زمین ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں۔ حجاج نے یہ سن کر حکم دیا کہ ان کو قبلہ کی مخالف سمت کر کے مضبوط باندھ دیا جائے۔ سعید نے فرمایا ( فاينما تولو ا فثم وجہ اللہ ) ( البقرہ: 115 ) جس طرف بھی تم رخ کروگے اسی طرف اللہ ہے۔ اب حجاج نے حکم دیاکہ سر کے بل اوندھا کردیا جائے۔ سعید نے فرمایا ( منھا خلقنکم وفيھا نعيدکم ومنھا نخرجکم تار اخري ) ( طہ: 55 ) حجاج نے یہ سن کر حکم دیا کہ اس کو ذبح کر ڈالو۔ سعید نے فرمایا کہ میں شہادت دیتا اور حجت پیش کرتا ہوں‘ اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں اور اس بات کی کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ یہ حجت ایمانی میری طرف سے سنبھال یہاں تک کہ تو مجھ سے قیامت کے دن ملے۔
پھر سعید نے دعاکی اے اللہ! حجاج کو میرے بعد کسی کے قتل پر قادر نہ کر۔ اس کے بعد کھال پر ان کو ذبح کردیا گیا۔ کہتے ہیں کہ حجاج اس کے قتل کے بعد پندرہ راتیں اور جیا‘ اس کے بعد حجاج کے پیٹ میں کیڑوں کی بیماری ہو گئی۔ حجاج نے حکیم کو بلوایا تاکہ معائنہ کرلے، حکیم نے ایک گوشت کا ایک سڑا ہو ٹکڑا منگوایا اور اس کو دھاگے میں پروکر اس کے گلے سے اتار ا اور کچھ دیر تک چھوڑے رکھا‘ اس کے بعد حکیم نے اس کو نکالا تو دیکھا کہ خون سے بھرا ہوا ہے۔ حکیم سمجھ گیا کہ اب یہ بچنے والا نہیں۔ حجاج اپنی بقیہ زندگی میں چیختا چلاتا رہتا تھا کہ مجھے اور سعید کو کیا ہوا کہ جب میں سوتا ہوں تو میرا پاؤں پکڑ کر ہلا دیتا ہے۔ سعید بن جبیر عراق کی کھلی آبادی میں دفن کئے گئے۔ غفراللہ لہ ( اکمال )
سند میں مذکور حضرت سعید بن جبیر اسدی کوفی ہیں‘ جلیل القدر تابعین میں سے ایک یہ بھی ہیں۔ انہوں نے ابو مسعود‘ ابن عباس‘ ابن عمر ابن زبیر اور انس رضی اللہ عنہ سے علم حاصل کیا اور ان سے بہت سے لوگوں نے۔ ماہ شعبان 95 ھ میں جبکہ ان کی عمر انچاس سال کی تھی‘ حجاج بن یوسف نے ان کو قتل کرایا اور خود حجاج رمضان میں مرا اور بعض کے نزدیک اسی سال شوال میں اور یوں بھی کہتے ہیں کہ ان کی شہادت کے چھ ماہ بعد مرا۔ اس کے بعد حجاج کسی کے قتل پر قادر نہ ہوا۔ کیونکہ سعید نے اس کے لئے دعا کی تھی جبکہ حجاج ان سے مخاطب ہو کر بولا کہ بتاؤ تم کو کس طرح قتل کیا جائے میں تم کو اسی طرح قتل کروں گا۔ سعید بولے کہ اے حجاج! تو اپنا قتل ہونا جس طرح چاہے وہ بتلا، اس لئے کہ خدا کی قسم جس طرح تو مجھ کو قتل کرے گا اسی طرح آخرت میں میں تجھ کو قتل کروں گا۔ حجاج بولا کیا تم چاہتے ہو کہ میں تم کو معاف کردوں۔ بولے کہ اگر عفو واقع ہوا تو وہ اللہ کی طرف سے ہوگا اور تیرے لئے اس میں کوئی برات و عذر نہیں۔ حجاج یہ سن کر بولاکہ ان کو لے جاؤ اور قتل کر ڈالو۔ پس جب ان کو دروازہ سے باہر نکالا تو یہ ہنس پڑے۔ اس کی اطلاع حجاج کو پہنچائی گئی تو حکم دیا کہ ان کو واپس لاؤ۔ لہٰذا واپس لایا گیا تو ان سے پوچھا کہ اب ہنسنے کا کیا سبب تھا۔ بولے کہ مجھ کو اللہ کے مقابلے میں تیری بے باکی اور اللہ تعالیٰ کی تیرے مقابل میں حلم وبردباری پر تعجب ہوتا ہے۔ حجاج نے یہ سن کر حکم دیا کہ کھال بچھائی جائے تو بچھائی گئی پھرحکم دیا کہ ان کو قتل کردیا جائے۔ اس کے بعد سعید بن جبیر نے فرمایا کہ ( وجھت وجھي للذي الخ ) ( الانعام : 79 ) یعنی میں نے اپنا رخ سب سے موڑ کر اس خدا کی طرف کرلیا ہے کہ جو خالق آسمان و زمین ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں۔ حجاج نے یہ سن کر حکم دیا کہ ان کو قبلہ کی مخالف سمت کر کے مضبوط باندھ دیا جائے۔ سعید نے فرمایا ( فاينما تولو ا فثم وجہ اللہ ) ( البقرہ: 115 ) جس طرف بھی تم رخ کروگے اسی طرف اللہ ہے۔ اب حجاج نے حکم دیاکہ سر کے بل اوندھا کردیا جائے۔ سعید نے فرمایا ( منھا خلقنکم وفيھا نعيدکم ومنھا نخرجکم تار اخري ) ( طہ: 55 ) حجاج نے یہ سن کر حکم دیا کہ اس کو ذبح کر ڈالو۔ سعید نے فرمایا کہ میں شہادت دیتا اور حجت پیش کرتا ہوں‘ اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں اور اس بات کی کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ یہ حجت ایمانی میری طرف سے سنبھال یہاں تک کہ تو مجھ سے قیامت کے دن ملے۔
پھر سعید نے دعاکی اے اللہ! حجاج کو میرے بعد کسی کے قتل پر قادر نہ کر۔ اس کے بعد کھال پر ان کو ذبح کردیا گیا۔ کہتے ہیں کہ حجاج اس کے قتل کے بعد پندرہ راتیں اور جیا‘ اس کے بعد حجاج کے پیٹ میں کیڑوں کی بیماری ہو گئی۔ حجاج نے حکیم کو بلوایا تاکہ معائنہ کرلے، حکیم نے ایک گوشت کا ایک سڑا ہو ٹکڑا منگوایا اور اس کو دھاگے میں پروکر اس کے گلے سے اتار ا اور کچھ دیر تک چھوڑے رکھا‘ اس کے بعد حکیم نے اس کو نکالا تو دیکھا کہ خون سے بھرا ہوا ہے۔ حکیم سمجھ گیا کہ اب یہ بچنے والا نہیں۔ حجاج اپنی بقیہ زندگی میں چیختا چلاتا رہتا تھا کہ مجھے اور سعید کو کیا ہوا کہ جب میں سوتا ہوں تو میرا پاؤں پکڑ کر ہلا دیتا ہے۔ سعید بن جبیر عراق کی کھلی آبادی میں دفن کئے گئے۔ غفراللہ لہ ( اکمال )