‌صحيح البخاري - حدیث 2758

كِتَابُ الوَصَايَا بَابُ مَنْ تَصَدَّقَ إِلَى وَكِيلِهِ ثُمَّ رَدَّ الوَكِيلُ إِلَيْهِ صحيح وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ لاَ أَعْلَمُهُ إِلَّا عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ} [آل عمران: 92] جَاءَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي كِتَابِهِ: {لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ} [آل عمران: 92] وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ، قَالَ: - وَكَانَتْ حَدِيقَةً كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا، وَيَسْتَظِلُّ بِهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا -، فَهِيَ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَإِلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرْجُو بِرَّهُ وَذُخْرَهُ، فَضَعْهَا أَيْ رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَخْ يَا أَبَا طَلْحَةَ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ، قَبِلْنَاهُ مِنْكَ، وَرَدَدْنَاهُ عَلَيْكَ، فَاجْعَلْهُ فِي الأَقْرَبِينَ»، فَتَصَدَّقَ بِهِ أَبُو طَلْحَةَ عَلَى ذَوِي رَحِمِهِ، قَالَ: وَكَانَ مِنْهُمْ أُبَيٌّ، وَحَسَّانُ، قَالَ: وَبَاعَ حَسَّانُ حِصَّتَهُ مِنْهُ مِنْ مُعَاوِيَةَ، فَقِيلَ لَهُ: تَبِيعُ صَدَقَةَ أَبِي طَلْحَةَ، فَقَالَ: أَلاَ أَبِيعُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ بِصَاعٍ مِنْ دَرَاهِمَ، قَالَ: وَكَانَتْ تِلْكَ الحَدِيقَةُ فِي مَوْضِعِ قَصْرِ بَنِي حُدَيْلَةَ الَّذِي بَنَاهُ مُعَاوِيَةُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2758

کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان باب : اگر صدقہ کے لئے کسی کو وکیل کرے اور وکیل اس کا صدقہ پھیردے اور اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا کہ مجھے عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابی سلمہ نے خبر دی‘ انہیں اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے ( امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ) میں سمجھتاہوں کہ یہ روایت انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا ( جب سورۃ آل عمران کی ) یہ آیت نازل ہوئی کہ ” تم نیکی ہرگز نہیں پاسکتے جب تک اس مال میں سے خرچ نہ کرو جو تم کو زیادہ پسند ہے “ تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے کہ ” تم نیکی ہرگز نہیں پاسکتے جب تک اس مال میں سے خرچ نہ کرو جو تم کو زیادہ پسند ہے اور میرے اموال میں سب سے پسند مجھے بیرحاءہے۔ بیان کیاکہ بیرحاءایک باغ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں تشریف لے جایا کرتے‘ اس کے سائے میں بیٹھتے اوراس کا پانی پیتے ( ابو طلحہ نے کہا کہ ) اس لئے وہ اللہ عزوجل کی راہ میں صدقہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے۔ میں اس کی نیکی اور اس کے ذخیرئہ آخرت ہونے کی امید رکھتا ہوں۔ پس یارسول اللہ! جس طرح اللہ آپ کو بتائے اسے خرچ کیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واہ واہ شاباش ابو طلحہ یہ تو بڑا نفع بخش مال ہے‘ ہم تم سے اسے قبول کرکے پھر تمہارے ہی حوالے کردیتے ہیں اور اب تم اسے اپنے عزیزوں کو دےدو۔ چنانچہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ باغ اپنے عزیزوں کو دے دیا۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جن لوگوں کو باغ آپ نے دیا تھا ان میں ابی اور حسان رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ حسان رضی اللہ عنہ نے اپنا حصہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو بیچ دیا تو کسی نے ان سے کہا کہ کیا آپ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا دیا ہوا مال بیچ رہے ہو؟ حسان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں کھجور کا ایک صاع روپےوں کے ایک صاع کے بدل کیوں نہ بیچوں۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا یہ باغ بنی حدیلہ کے محلّہ کے قریب تھا جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے ( بطور قلعہ کے ) تعمیر کیا تھا۔
تشریح : ترجمہ باب اس سے نکلا کہ ابو طلحہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وکیل کیا تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا صدقہ قبول فرما کر پھر ان ہی کو واپس کر دیا اور فرمایا کہ اسے اپنے اقرباءمیں تقسیم کردو۔ حضرت حسان نے اپنا حصہ حضرت معاویہ کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا جب لوگوں نے اعتراض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کھجور کا ایک صاع روپیوں کے ایک صاع کے بدل کیوں نہ بیچوں یعنی ایسی قیمت پھر کہا ں ملے گی گویا کھجور چاندی کے ہم وزن بک رہی ہے۔ کہتے ہیں صرف حسان کا حصہ اس باغ میں حضرت معاویہ نے ایک لاکھ درہم میں خریدا۔ چونکہ ابو طلحہ نے یہ باغ معین لوگو ں پر وقف کیا تھا لہذا ان کو اپنا حصہ بیچنا درست ہوا۔ بعضوں نے کہا ابو طلحہ نے ان لوگوں پر وقف کرتے وقت یہ شرط لگادی تھی کہ اگران کو حاجت ہو تو بیچ سکتے ہیں ورنہ مال وقف کی بیع درست نہیں قصر بن حدیلہ کی تفصیل حافظ صاحب یوں فرماتے ہیں۔ واما قصر بنی حدیلۃ وھو بالمھملۃ مصغر ووھم من قالہ بالجیم فنسب الیھم القصر بسبب المجاورۃ والا فالذی بناہ ھو معاویۃ بن ابی سفیان و بنو حدیلۃ بالمھملۃ مصغر بطن من الانصاروھم بنو معاویۃ بن عمرو بن مالک النجار وکانوا بتلک البقعۃ فعرفت بھم فلما اشتری معاویۃ حصۃ حسان بنی فیھا ہذا القصر فعرفت بقصر بنی حدیلۃ ذکر ذلک عمرو بن شیبۃ وغیرہ فی اخبار المدینۃ ملکھم الحدیقۃ المذکورۃ ولم یفقھا علیھم اذلووقفھا ما ساغ لحسان ان یبیعھا ووقع فی اخبار المدینۃ لمحمد ابن الحسن المخزومی من طریق ابی بکر بن حزم ان ثمن حصۃ حسان مائۃ الف درھم قبضھا من معاویہ بن ابی سفیان ( خلاصہ فتح الباری ) اور لیکن قصر بنی حدیلہ حائے مہملہ کے ساتھ اور جس نے اسے جیم کے ساتھ نقل کیا یہ اس کا وہم ہے۔ یہ پڑوس کی وجہ سے بنو حدیلہ کی طرف منسوب ہوگیا تھا ورنہ اس کے بنانے والے حضرت معاویہ بن ابی سفیا ن ہیں اور بنو حدیلہ انصار کا ایک قبیلہ ہے۔ یہ بنو معاویہ بن عمر و بن مالک نجار ہیں جو یہاں رہا کرتے تھے پس ان ہی سے یہ منسوب ہوگیا۔ پس جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ والا حصہ خرید لیا تو وہاں یہ قلعہ بنایا جو قصر بنو حدیلہ کے نام سے موسوم ہوگیا۔ اسے عمرو بن شیبہ وغیرہ نے اخبار المدینہ میں ذکر کیا ہے‘ حضرت حسان نے اپنا حصہ حضرت معاویہ کو بیچ دیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر اس کو ان پر وقف کرتے تو اسے حسان فروخت نہیں کرسکتے تھے اور اخبار مدینہ میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت حسان کو ان کے حصہ کی قیمت ایک لاکھ درھم ادا کی تھی۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں واجاب آخر بان ابا طلحۃ حین وقفھا شرط جواز بیعھم عند الاحتیاج فان الشرط بھذا الشرط قال بعضھم لجوازہ واللہ اعلم یعنی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے جب اسے وقف کیا تو حاجت کے وقت ان لوگوں کو بیچنے کی اجازت دے دی تھی اور اس شرط کے ساتھ وقف جائز ہے۔ لفظ حدیلہ کو بعض نے جیم کے ساتھ جدیلہ نقل کیا ہے۔ بعض نے کہا کہ وہ صحیح حاء مضمون کے ساتھ حدیلہ ہے واللّٰہ اعلم۔ ترجمہ باب اس سے نکلا کہ ابو طلحہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وکیل کیا تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا صدقہ قبول فرما کر پھر ان ہی کو واپس کر دیا اور فرمایا کہ اسے اپنے اقرباءمیں تقسیم کردو۔ حضرت حسان نے اپنا حصہ حضرت معاویہ کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا جب لوگوں نے اعتراض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کھجور کا ایک صاع روپیوں کے ایک صاع کے بدل کیوں نہ بیچوں یعنی ایسی قیمت پھر کہا ں ملے گی گویا کھجور چاندی کے ہم وزن بک رہی ہے۔ کہتے ہیں صرف حسان کا حصہ اس باغ میں حضرت معاویہ نے ایک لاکھ درہم میں خریدا۔ چونکہ ابو طلحہ نے یہ باغ معین لوگو ں پر وقف کیا تھا لہذا ان کو اپنا حصہ بیچنا درست ہوا۔ بعضوں نے کہا ابو طلحہ نے ان لوگوں پر وقف کرتے وقت یہ شرط لگادی تھی کہ اگران کو حاجت ہو تو بیچ سکتے ہیں ورنہ مال وقف کی بیع درست نہیں قصر بن حدیلہ کی تفصیل حافظ صاحب یوں فرماتے ہیں۔ واما قصر بنی حدیلۃ وھو بالمھملۃ مصغر ووھم من قالہ بالجیم فنسب الیھم القصر بسبب المجاورۃ والا فالذی بناہ ھو معاویۃ بن ابی سفیان و بنو حدیلۃ بالمھملۃ مصغر بطن من الانصاروھم بنو معاویۃ بن عمرو بن مالک النجار وکانوا بتلک البقعۃ فعرفت بھم فلما اشتری معاویۃ حصۃ حسان بنی فیھا ہذا القصر فعرفت بقصر بنی حدیلۃ ذکر ذلک عمرو بن شیبۃ وغیرہ فی اخبار المدینۃ ملکھم الحدیقۃ المذکورۃ ولم یفقھا علیھم اذلووقفھا ما ساغ لحسان ان یبیعھا ووقع فی اخبار المدینۃ لمحمد ابن الحسن المخزومی من طریق ابی بکر بن حزم ان ثمن حصۃ حسان مائۃ الف درھم قبضھا من معاویہ بن ابی سفیان ( خلاصہ فتح الباری ) اور لیکن قصر بنی حدیلہ حائے مہملہ کے ساتھ اور جس نے اسے جیم کے ساتھ نقل کیا یہ اس کا وہم ہے۔ یہ پڑوس کی وجہ سے بنو حدیلہ کی طرف منسوب ہوگیا تھا ورنہ اس کے بنانے والے حضرت معاویہ بن ابی سفیا ن ہیں اور بنو حدیلہ انصار کا ایک قبیلہ ہے۔ یہ بنو معاویہ بن عمر و بن مالک نجار ہیں جو یہاں رہا کرتے تھے پس ان ہی سے یہ منسوب ہوگیا۔ پس جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ والا حصہ خرید لیا تو وہاں یہ قلعہ بنایا جو قصر بنو حدیلہ کے نام سے موسوم ہوگیا۔ اسے عمرو بن شیبہ وغیرہ نے اخبار المدینہ میں ذکر کیا ہے‘ حضرت حسان نے اپنا حصہ حضرت معاویہ کو بیچ دیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر اس کو ان پر وقف کرتے تو اسے حسان فروخت نہیں کرسکتے تھے اور اخبار مدینہ میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت حسان کو ان کے حصہ کی قیمت ایک لاکھ درھم ادا کی تھی۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں واجاب آخر بان ابا طلحۃ حین وقفھا شرط جواز بیعھم عند الاحتیاج فان الشرط بھذا الشرط قال بعضھم لجوازہ واللہ اعلم یعنی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے جب اسے وقف کیا تو حاجت کے وقت ان لوگوں کو بیچنے کی اجازت دے دی تھی اور اس شرط کے ساتھ وقف جائز ہے۔ لفظ حدیلہ کو بعض نے جیم کے ساتھ جدیلہ نقل کیا ہے۔ بعض نے کہا کہ وہ صحیح حاء مضمون کے ساتھ حدیلہ ہے واللّٰہ اعلم۔