كِتَابُ الوَصَايَا بَابُ إِذَا تَصَدَّقَ، أَوْ أَوْقَفَ بَعْضَ مَالِهِ، صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ [ص:8]، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ، وَإِلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: «أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ، فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ»، قُلْتُ: فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِي الَّذِي بِخَيْبَرَ
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
کسی نے اپنی کوئی چیز یا لونڈی ، غلام یا جانور صدقہ یا وقف کیا تو جائز ہے
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا‘ کہاہم سے لیث نے بیان کیا‘ ان سے عقیل نے‘ ان سے ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عبدالرحمٰن ابن عبداللہ بن کعب نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن کعب نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا‘ وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میری توبہ ( غزوہ تبوک میں نہ جانے کی ) قبول ہونے کا شکرانہ یہ ہے کہ میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں دےدوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اپنے مال کا ایک حصہ اپنے پاس ہی باقی رکھو تو تمھارے حق میں یہ بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا کہ پھر میں اپنا خیبر کا حصہ اپنے پاس محفوظ رکھتا ہوں۔
تشریح :
یہ کعب بن مالک رحمہ اللہ وہ صحابی ہیں جو اپنے دو ساتھیوں سمیت جنگ تبوک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں نکلے تھے۔ آپ ایک مدت تک زیر عتاب رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی۔ اس کا مفصل ذکر کتاب المغازی میں آئے گا۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ سارا مال خیرات کردینا مکروہ ہے اور یہ بھی نکلا کہ مال منقولہ کا وقف کرنا بھی جائز ہے۔
یہ کعب بن مالک رحمہ اللہ وہ صحابی ہیں جو اپنے دو ساتھیوں سمیت جنگ تبوک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں نکلے تھے۔ آپ ایک مدت تک زیر عتاب رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی۔ اس کا مفصل ذکر کتاب المغازی میں آئے گا۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ سارا مال خیرات کردینا مکروہ ہے اور یہ بھی نکلا کہ مال منقولہ کا وقف کرنا بھی جائز ہے۔