‌صحيح البخاري - حدیث 2751

كِتَابُ الوَصَايَا بَابُ تَأْوِيلِ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ} [النساء: 11] صحيح حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّخْتِيَانِيُّ، أَخْبَرَنَا [ص:6] عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا، وَالخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ»، قَالَ: وَحَسِبْتُ أَنْ قَدْ قَالَ: «وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي مَالِ أَبِيهِ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2751

کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان باب : اللہ تعالیٰ کے ( سورۃ نساء میں ) یہ فرمانے کی تفسیر کہ حصوں کی تقسیم وصیت اور دین کے بعد ہوگی ہم سے بشربن محمد نے بیان کیا‘ کہا ہم کو عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی کہا ہم کو یونس نے، انہوں نے زہری سے ‘ انہوں نے کہا مجھ کو سالم نے خبر دی‘ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے انہوں نے کہا میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ حاکم بھی نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائےگا اور مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھی جائے گی اور غلام اپنے صاحب کے مال کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مرد اپنے باپ کے مال کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
تشریح : یہ حدیث کتاب العتق میں گزر چکی ہے‘ اس کی مباسبت ترجمہ سے مشکل ہے۔ بعضوں نے کہا ہے غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہوا حالانکہ وہ غلام ہی کا کمایا ہوا ہے تو اس میں مالک اور غلام دونوں کے حق متعلق ہوئے‘ لیکن مالک کا حق مقدم کیا گیا کیونکہ وہ زیادہ قوی ہے۔ اسی طرح قرض اور وصیت میں قرض کو مقدم کیا جائے گا‘ کیونکہ قرض کی ادائیگی فرض ہے اور وصیت ایک قسم کا تبرع یعنی نفل ہے۔ شافعیہ نے کہا کہ ان میں وارث داخل نہ ہوں گے۔ بعضوں نے کہا داخل ہوں گے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا عزیزوں سے محرم ناطہ دار مراد ہوں گے ‘ باپ کی طرف کے ہوں یاماں کی طرف کے۔ یہ حدیث کتاب العتق میں گزر چکی ہے‘ اس کی مباسبت ترجمہ سے مشکل ہے۔ بعضوں نے کہا ہے غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہوا حالانکہ وہ غلام ہی کا کمایا ہوا ہے تو اس میں مالک اور غلام دونوں کے حق متعلق ہوئے‘ لیکن مالک کا حق مقدم کیا گیا کیونکہ وہ زیادہ قوی ہے۔ اسی طرح قرض اور وصیت میں قرض کو مقدم کیا جائے گا‘ کیونکہ قرض کی ادائیگی فرض ہے اور وصیت ایک قسم کا تبرع یعنی نفل ہے۔ شافعیہ نے کہا کہ ان میں وارث داخل نہ ہوں گے۔ بعضوں نے کہا داخل ہوں گے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا عزیزوں سے محرم ناطہ دار مراد ہوں گے ‘ باپ کی طرف کے ہوں یاماں کی طرف کے۔