‌صحيح البخاري - حدیث 2745

كِتَابُ الوَصَايَا بَابُ قَوْلِ المُوصِي لِوَصِيِّهِ: تَعَاهَدْ وَلَدِي، وَمَا يَجُوزُ لِلْوَصِيِّ مِنَ الدَّعْوَى صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَى أَخِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ مِنِّي، فَاقْبِضْهُ إِلَيْكَ، فَلَمَّا كَانَ عَامُ الفَتْحِ، أَخَذَهُ سَعْدٌ، فَقَالَ: ابْنُ أَخِي قَدْ كَانَ عَهِدَ إِلَيَّ فِيهِ، فَقَامَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ فَقَالَ: أَخِي، وَابْنُ أَمَةِ أَبِي وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ، فَتَسَاوَقَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْنُ أَخِي كَانَ عَهِدَ إِلَيَّ فِيهِ، فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي وَابْنُ وَلِيدَةِ أَبِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ، الوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الحَجَرُ» ثُمَّ قَالَ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ: «احْتَجِبِي مِنْهُ» لِمَا رَأَى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ، فَمَا رَآهَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2745

کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان باب : وصیت کرنے والا اپنے وصی سے کہے کہ میرے بچے کی دیکھ بھال کرتے رہنا اوروصی کے لئے کس طرح کے دعوے جائز ہیں؟ ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعبنی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے امام مالک نے ابن شہاب سے‘ وہ عروہ بن زبیر سے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی کہ زمعہ کی باندی کا لڑکا میرا ہے‘ اس لئے تم اسے لے لینا چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر سعد رضی اللہ عنہ نے اسے لے لیا اور کہا کہ میرے بھائی کا لڑکا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں مجھے اس کی وصیت کی تھی۔ پھر عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہنے لگے کہ یہ تو میرا بھائی ہےُ میرے باپ کی لونڈی نے اس کوجنا ہے اورمیرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ پھر یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے‘ مجھے اس نے وصیت کی تھی۔ لیکن عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یہ میرا بھائی اور میرے والد کی باندی کا لڑکا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ یہ فرمایا کہ لڑکا تمھارا ہی ہے عبدبن زمعہ! بچہ فراش کے تحت ہو تا ہے اور زانی کے حصے میں پتھر ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ کر کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ کی مشابہت اس لڑکے میں صاف پائی تھی۔ چنانچہ اس کے بعد اس لڑکے نے سودہ رضی اللہ عنہ کو کبھی نہ دیکھا تا آنکہ آپ اللہ تعالیٰ سے جاملیں۔
تشریح : ترجمہ باب اس سے نکلا کہ عتبہ نے کہا میرے لڑکے کا خیال رکھو‘ اس کو لے لینا اور سعد نے جو اپنے بھائی کے وصی تھے اس کا دعویٰ کیا۔ اس بچے کا نام عبد الرحمٰن تھا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کردیا کہ وہ زمعہ کا بیٹا ہے تو سودہ کا بھائی ہوا مگر چونکہ اس کی صورت عتبہ سے ملتی تھی اس لئے احتیاطاً حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔ ترجمہ باب اس سے نکلا کہ عتبہ نے کہا میرے لڑکے کا خیال رکھو‘ اس کو لے لینا اور سعد نے جو اپنے بھائی کے وصی تھے اس کا دعویٰ کیا۔ اس بچے کا نام عبد الرحمٰن تھا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کردیا کہ وہ زمعہ کا بیٹا ہے تو سودہ کا بھائی ہوا مگر چونکہ اس کی صورت عتبہ سے ملتی تھی اس لئے احتیاطاً حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔