كِتَابُ الوَصَايَا بَابُ أَنْ يَتْرُكَ وَرَثَتَهُ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَتَكَفَّفُوا النَّاسَ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، وَهُوَ يَكْرَهُ أَنْ يَمُوتَ بِالأَرْضِ الَّتِي هَاجَرَ مِنْهَا، قَالَ: «يَرْحَمُ اللَّهُ ابْنَ عَفْرَاءَ»، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ: «لاَ»، قُلْتُ: فَالشَّطْرُ، قَالَ: «لاَ»، قُلْتُ: الثُّلُثُ، قَالَ: «فَالثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ فِي أَيْدِيهِمْ، وَإِنَّكَ مَهْمَا أَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَةٍ، فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ، حَتَّى اللُّقْمَةُ الَّتِي تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ، وَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَكَ، فَيَنْتَفِعَ بِكَ نَاسٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ»، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ يَوْمَئِذٍ إِلَّا ابْنَةٌ
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
باب : اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا سعد بن ابراہیم سے‘ ان سے عامر بن سعد نے اور ان سے سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( حجۃ الوداع میں ) میری عیادت کو تشریف لائے ‘ میں اس وقت مکہ میں تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سر زمین پر موت کو پسند نہیں فرماتے تھے جہاں سے کوئی ہجرت کر چکا ہو۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ ابن عفراء ( سعد بن خولہ رحمہ اللہ ) پررحم فرمائے۔ میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنے سارے مال و دولت کی وصیت کردوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں میں نے پوچھا پھرآدھے کی کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی یہی فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا پھر تہائی کی کردوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تہائی کی کرسکتے ہو اوریہ بھی بہت ہے‘ اگر تم اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب تم اپنی کوئی چیز ( اللہ کے لئے خرچ کروگے ) تو وہ خیرات ہے‘ یہاں تک کہ وہ لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منھ میں ڈالو گے ( وہ بھی خیرات ہے ) اور ( ابھی وصیت کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ) ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں شفادے اور اس کے بعدتم سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہو اور دوسرے بہت سے لوگ ( اسلام کے مخالف ) نقصان اٹھائیں۔ اس وقت حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی صرف ایک بیٹی تھیں۔
تشریح :
ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ اس بیماری میں نا امید ی کی حالت کو پہنچ چکے تھے۔ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سارے مال کے وقف کردینے کا خیال ظاہرکیا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی ڈھارس بند ھائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت کی بشارت دی چنانچہ آپ بعد میں تقریباً پچاس سال زندہ دہے اور تاریخ اسلام میں آپ نے بڑے عظیم کارنامے انجام دیئے ( رضی اللہ عنہ ) مورخین نے ان کے دس بیٹے اور بارہ بیٹیاں بتلائی ہیں۔ واﷲ اعلم با لصواب
ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ اس بیماری میں نا امید ی کی حالت کو پہنچ چکے تھے۔ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سارے مال کے وقف کردینے کا خیال ظاہرکیا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی ڈھارس بند ھائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت کی بشارت دی چنانچہ آپ بعد میں تقریباً پچاس سال زندہ دہے اور تاریخ اسلام میں آپ نے بڑے عظیم کارنامے انجام دیئے ( رضی اللہ عنہ ) مورخین نے ان کے دس بیٹے اور بارہ بیٹیاں بتلائی ہیں۔ واﷲ اعلم با لصواب