كِتَابُ الوَصَايَا بَابُ الوَصَايَا وَقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «وَصِيَّةُ الرَّجُلِ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ» صحيح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، قَالَ: ذَكَرُوا عِنْدَ عَائِشَةَ أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ وَصِيًّا، فَقَالَتْ: مَتَى أَوْصَى إِلَيْهِ، وَقَدْ كُنْتُ مُسْنِدَتَهُ إِلَى صَدْرِي؟ - أَوْ قَالَتْ: حَجْرِي - فَدَعَا بِالطَّسْتِ، فَلَقَدْ انْخَنَثَ فِي حَجْرِي، فَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ، فَمَتَى أَوْصَى إِلَيْهِ
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
باب : اس بارے میں وصیتیں ضروری ہیں
ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا‘ کہ ہم کو اسماعیل بن علیہ نے خبر دی عبداللہ بن عون سے‘ انہیں ابراہیم نخعی نے‘ ان سے اسود بن یزید نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے یہاں کچھ لوگوں نے ذکر کیا کہ علی کرم اللہ وجہہ ( نبی اکرم کے ) وصی تھے تو آپ نے کہا کہ کب انہیں وصی بنایا۔ میں تو آپ کے وصال کے وقت سر مبارک اپنے سینے پر یا انہوں نے ( بجائے سینے کے ) کہا کہ اپنے گود میں رکھے ہوئے تھی پھر آپ نے ( پانی کا ) طشت منگوایا تھا کہ اتنے میں ( سر مبارک ) میری گود میں جھک گیا اور میں سمجھ نہ سکی کہ آپ کی وفات ہو چکی ہے تو آپ نے علی کو وصی کب بنایا۔
تشریح :
حضرت عائشہ کا مطلب یہ ہے کہ بیماری سے لے کر وفات تک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہی پاس رہے‘ میری ہی گود میں انتقال فرمایا‘ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصی بناتے یعنی اپنا خلیفہ مقرر کرتے جیسے شیعہ گمان کرتے ہیں تو مجھ کو تو ضرور خبر ہوتی پس شیعوں کا یہ دعویٰ بالکل بلا دلیل ہے۔
حضرت عائشہ کا مطلب یہ ہے کہ بیماری سے لے کر وفات تک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہی پاس رہے‘ میری ہی گود میں انتقال فرمایا‘ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصی بناتے یعنی اپنا خلیفہ مقرر کرتے جیسے شیعہ گمان کرتے ہیں تو مجھ کو تو ضرور خبر ہوتی پس شیعوں کا یہ دعویٰ بالکل بلا دلیل ہے۔