كِتَابُ الوَصَايَا بَابُ الوَصَايَا وَقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «وَصِيَّةُ الرَّجُلِ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ» صحيح حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مَالِكٌ هُوَ ابْنُ مِغْوَلٍ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ مُصَرِّفٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا هَلْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَى؟ فَقَالَ: «لاَ»، فَقُلْتُ: كَيْفَ كُتِبَ عَلَى النَّاسِ الوَصِيَّةُ أَوْ أُمِرُوا بِالوَصِيَّةِ؟ قَالَ: «أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ»
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
باب : اس بارے میں وصیتیں ضروری ہیں
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیا ن کیا ‘ کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا‘ کہا ہم سے طلحہ بن مصرف نے بیان کیا‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ اس پر میں نے پوچھا کہ پھر وصیت کس طرح لوگوں پر فرض ہوئی؟ یا ( راوی نے اس طرح بیان کیا ) کہ لوگوں کو وصیت کا حکم کیوں کردیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کی تھی۔ ( اور کتاب اللہ میں وصیت کرنے کے لئے حکم موجود ہے )
تشریح :
باب کا مطلب اس سے نکلا کہ لوگوں پر وصیت کیسے فرض ہوئی۔ اللہ کی کتاب پر چلنے کا حکم ایک جامع وصیت ہے جو شریعت کے سارے احکام کو شامل ہے‘ جب تک مسلمان اس وصیت پہ قائم رہے اور قرآن وحدیث پر چلتے رہے ان کی دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوتی گئی اور جب قرآن وحدیث کو پس و پشت ڈال دیا اور ہر ایک نے اپنی رائے اور قیاس کو اصل بنایا۔ چھوٹ پڑ گئی‘ الگ الگ مذہب بن گئے اور ہر جگہ مسلمان متفرق ہو کر مغلوب ہوگئے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی تھی کہ جزیرئہ عرب کو یہودیوں سے پاک کردینا‘ ذمی کافروں کی ہر ممکن خاطر مدارات کرنا جیسے کہ میں کرتا ہوں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق وصی ہونے کی کوئی صحیح حدیث کسی بھی مستند کتا ب میں منقول نہیں ہے۔
باب کا مطلب اس سے نکلا کہ لوگوں پر وصیت کیسے فرض ہوئی۔ اللہ کی کتاب پر چلنے کا حکم ایک جامع وصیت ہے جو شریعت کے سارے احکام کو شامل ہے‘ جب تک مسلمان اس وصیت پہ قائم رہے اور قرآن وحدیث پر چلتے رہے ان کی دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوتی گئی اور جب قرآن وحدیث کو پس و پشت ڈال دیا اور ہر ایک نے اپنی رائے اور قیاس کو اصل بنایا۔ چھوٹ پڑ گئی‘ الگ الگ مذہب بن گئے اور ہر جگہ مسلمان متفرق ہو کر مغلوب ہوگئے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی تھی کہ جزیرئہ عرب کو یہودیوں سے پاک کردینا‘ ذمی کافروں کی ہر ممکن خاطر مدارات کرنا جیسے کہ میں کرتا ہوں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق وصی ہونے کی کوئی صحیح حدیث کسی بھی مستند کتا ب میں منقول نہیں ہے۔