‌صحيح البخاري - حدیث 2737

كِتَابُ الشُّرُوطِ بَابُ الشُّرُوطِ فِي الوَقْفِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ [ص:199] عَوْنٍ، قَالَ: أَنْبَأَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنْ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ أَصَابَ أَرْضًا بِخَيْبَرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَأْمِرُهُ فِيهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ، فَمَا تَأْمُرُ بِهِ؟ قَالَ: «إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا، وَتَصَدَّقْتَ بِهَا» قَالَ: فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ، أَنَّهُ لاَ يُبَاعُ وَلاَ يُوهَبُ وَلاَ يُورَثُ، وَتَصَدَّقَ بِهَا فِي الفُقَرَاءِ، وَفِي القُرْبَى وَفِي الرِّقَابِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، وَالضَّيْفِ لاَ جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ، وَيُطْعِمَ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ قَالَ: فَحَدَّثْتُ بِهِ ابْنَ سِيرِينَ، فَقَالَ: غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2737

کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان باب : وقف میں شرطیں لگانے کا بیان ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے محمد بن عبد اللہ انصاری نے بیان کیا‘ ان سے ابن عون نے ‘ کہا کہ مجھے نافع نے خبردی‘ انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک قطعہ زمین ملی تو آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشورہ کیلئے خاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے خیبر میں ایک زمین کا ٹکڑا ملا ہے اس سے بہتر مال مجھے اب تک کبھی نہیں ملا تھا‘ آپ اس اکے متعلق کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اگرجی چاہے تو اصل زمین اپنے ملکیت میں باقی رکھ اور پیداوار صدقہ کردے ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اس شرط کے ساتھ صدقہ کردیا کہ نہ اسے بیچا جائے گا نہ اس کاہبہ کیا جائے گا اور نہ اس میں وراثت چلے گی ۔ اسے آپ نے محتاجوں کے لئے ‘ رشتہ داروں کے لئے اور غلام آزاد کرانے کے لئے ‘ اللہ کے دین کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے اور مہمانوں کیلئے صدقہ ( وقف ) کردیا اور یہ کہ اس کا متولی اگر دستور کے مطابق اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق وصول کرلے یا کسی محتاج کو دے تو اس پر کوئی الزام نہیں ۔ ابن عون نے بیان کیا کہ جب میں نے اس حدیث کا ذکر ابن سیرین سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ( متولی ) اس میں سے مال جمع کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو ۔
تشریح : حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے‘ واقف اپنی وقف کو جس جس طور چاہے مشروط کر سکتا ہے‘ جیسا کہ یہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شرطوں کی تفصیلات موجود ہیں‘ اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ واقف اپنی تجویز کردہ شرطوں کے تحت اپنے وقف پر اپنی ذاتی ملکیت بھی باقی رکھ سکتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ وقف کا متولی نیک نیتی کے ساتھ دستور کے مطابق اس میں سے اپناخرچ بھی وصول کرسکتا ہے۔ اس وقف نامہ میں مصارف کی ایک مدفی سبیل اللہ بھی مذکور ہے۔ جس سے مجاہد ین کی امداد مراد ہے اور وہ جملہ کا م جن سے اللہ کے دین کی تبلیغ و اشاعت ہوتی ہو جیسے اسلامی مدارس اور تبلیغی ادارے وغیرہ وغیرہ۔ ہو فی اللغۃ الحبس یقال وقفت کذا بدون الف علی اللغۃ الفصیح ای حبستہ وفی الشریعۃ حبس الملک فی السبیل اللہ تعالیٰ للفقراءوابنا السبیل یصرف علیھم منافعہ و یبقی اصلہ علی ملک الواقف والفاظہ وقفت و حسبت وسبلت و ابدت ھذا صرائح الفاظہ و اما کنایۃ تصدقت واختلف فی حرمت فقیل صریح وقیل غیر صریح ( نیل الاوطار ) یعنی وقف کا لغوی معنی روکنا ہے‘ کہا جاتا ہے کہ میں نے اس طرح اس کو وقف کردیا یعنی روک دیا‘ ٹھہرادیا اور شریعت میں اپنی کسی ملکیت کو اللہ کے راستے میں روک دینا‘ وقف کردینا کہ اس کے منافع کو فقراءاور مسافروں پر خرچ کیا جائے اور اس کی اصل واقف کی ملکیت میں باقی رہے وقف کی صحت کے لئے الفاظ میں نے وقف کیا‘ میں نے اسے روک دیاوغیرہ وغیرہ صریح الفاظ ہیں۔ بطور کنایہ یہ بھی درست ہے کہ میںنے اسے صدقہ کردیا۔ لفظ حرمت میں نے اس کے منافع کا استعمال اپنے لئے حرام قرار دے لیا‘ اس کوبعض نے وقف کے لئے لفظ صریح قرار دیا اور بعض نے غیر صریح قرار دیا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب کی حدیث کے ذیل امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وفی الحدیث فوائد منھا ثبوت صحۃ اصل الوقف قال النووی وھذا مذھبنا یعنی ائمۃ الشافعیہ و مذھب الجماھیر و یدل علیہ ایضاً اجماع المسلمین علی صحۃ وقف المساجد و السقایات و منھا فضیلۃ الانفاق مما یحب ومنھا ذکر فضیلۃ ظاھرۃ لعمر رضی اللہ عنہ عنہ ومنھا مشاورۃ اھل الفضل والصلاح فی الامور و طریق الخیر ومنھا فضیلۃ صلۃ الارحام و الوقف علیھم۔ واللہ اعلم ( نیل ) یعنی اس حدیث میں بہت سے فوائد ہیں جن میں سے اصل وقف کی صحت کا ثبوت بھی ہے۔ بقول علامہ نووی ائمہ شافعیہ اور جماہیر کا یہی مذہب ہے اور اس پر عام مسلمانوں کا اجماع بھی دلیل ہے جو مساجد اور کنویں وغیرہ کے وقف کی صحت پر ہوچکا ہے اور اس حدیث سے خرچ کرنے کی بھی فضیلت ثابت ہوئی جو اپنے محبوب ترین مال میں سے کیا جاتا ہے اور اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی اور اس سے اہل علم و فضل سے صلاح و مشورہ کرنا بھی ثابت ہوا اور صلہ رحمی کی فضیلت اور رشتہ نا طہ والوں کے لئے وقف کرنے کی فضیلت بھی ثابت ہوئی۔ لفظ ” وقف “ مختلف احادیث میں مختلف معانی پربولاگیا ہے۔ جس کی تفصیل کیلئے کتاب لغات الحدیث بذیل لفظ ” واو “ کا مطالعہ کیا جائے۔ حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے‘ واقف اپنی وقف کو جس جس طور چاہے مشروط کر سکتا ہے‘ جیسا کہ یہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شرطوں کی تفصیلات موجود ہیں‘ اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ واقف اپنی تجویز کردہ شرطوں کے تحت اپنے وقف پر اپنی ذاتی ملکیت بھی باقی رکھ سکتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ وقف کا متولی نیک نیتی کے ساتھ دستور کے مطابق اس میں سے اپناخرچ بھی وصول کرسکتا ہے۔ اس وقف نامہ میں مصارف کی ایک مدفی سبیل اللہ بھی مذکور ہے۔ جس سے مجاہد ین کی امداد مراد ہے اور وہ جملہ کا م جن سے اللہ کے دین کی تبلیغ و اشاعت ہوتی ہو جیسے اسلامی مدارس اور تبلیغی ادارے وغیرہ وغیرہ۔ ہو فی اللغۃ الحبس یقال وقفت کذا بدون الف علی اللغۃ الفصیح ای حبستہ وفی الشریعۃ حبس الملک فی السبیل اللہ تعالیٰ للفقراءوابنا السبیل یصرف علیھم منافعہ و یبقی اصلہ علی ملک الواقف والفاظہ وقفت و حسبت وسبلت و ابدت ھذا صرائح الفاظہ و اما کنایۃ تصدقت واختلف فی حرمت فقیل صریح وقیل غیر صریح ( نیل الاوطار ) یعنی وقف کا لغوی معنی روکنا ہے‘ کہا جاتا ہے کہ میں نے اس طرح اس کو وقف کردیا یعنی روک دیا‘ ٹھہرادیا اور شریعت میں اپنی کسی ملکیت کو اللہ کے راستے میں روک دینا‘ وقف کردینا کہ اس کے منافع کو فقراءاور مسافروں پر خرچ کیا جائے اور اس کی اصل واقف کی ملکیت میں باقی رہے وقف کی صحت کے لئے الفاظ میں نے وقف کیا‘ میں نے اسے روک دیاوغیرہ وغیرہ صریح الفاظ ہیں۔ بطور کنایہ یہ بھی درست ہے کہ میںنے اسے صدقہ کردیا۔ لفظ حرمت میں نے اس کے منافع کا استعمال اپنے لئے حرام قرار دے لیا‘ اس کوبعض نے وقف کے لئے لفظ صریح قرار دیا اور بعض نے غیر صریح قرار دیا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب کی حدیث کے ذیل امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وفی الحدیث فوائد منھا ثبوت صحۃ اصل الوقف قال النووی وھذا مذھبنا یعنی ائمۃ الشافعیہ و مذھب الجماھیر و یدل علیہ ایضاً اجماع المسلمین علی صحۃ وقف المساجد و السقایات و منھا فضیلۃ الانفاق مما یحب ومنھا ذکر فضیلۃ ظاھرۃ لعمر رضی اللہ عنہ عنہ ومنھا مشاورۃ اھل الفضل والصلاح فی الامور و طریق الخیر ومنھا فضیلۃ صلۃ الارحام و الوقف علیھم۔ واللہ اعلم ( نیل ) یعنی اس حدیث میں بہت سے فوائد ہیں جن میں سے اصل وقف کی صحت کا ثبوت بھی ہے۔ بقول علامہ نووی ائمہ شافعیہ اور جماہیر کا یہی مذہب ہے اور اس پر عام مسلمانوں کا اجماع بھی دلیل ہے جو مساجد اور کنویں وغیرہ کے وقف کی صحت پر ہوچکا ہے اور اس حدیث سے خرچ کرنے کی بھی فضیلت ثابت ہوئی جو اپنے محبوب ترین مال میں سے کیا جاتا ہے اور اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی اور اس سے اہل علم و فضل سے صلاح و مشورہ کرنا بھی ثابت ہوا اور صلہ رحمی کی فضیلت اور رشتہ نا طہ والوں کے لئے وقف کرنے کی فضیلت بھی ثابت ہوئی۔ لفظ ” وقف “ مختلف احادیث میں مختلف معانی پربولاگیا ہے۔ جس کی تفصیل کیلئے کتاب لغات الحدیث بذیل لفظ ” واو “ کا مطالعہ کیا جائے۔