كِتَابُ الشُّرُوطِ بَابُ الشُّرُوطِ فِي الجِهَادِ وَالمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ صحيح وَقَالَ عُقَيْلٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ عُرْوَةُ: فَأَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَمْتَحِنُهُنَّ وَبَلَغْنَا أَنَّهُ لَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: أَنْ يَرُدُّوا إِلَى المُشْرِكِينَ مَا أَنْفَقُوا عَلَى مَنْ هَاجَرَ مِنْ أَزْوَاجِهِمْ، وَحَكَمَ عَلَى المُسْلِمِينَ أَنْ لاَ يُمَسِّكُوا بِعِصَمِ الكَوَافِرِ، أَنَّ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَيْنِ، قَرِيبَةَ بِنْتَ أَبِي أُمَيَّةَ، وَابْنَةَ جَرْوَلٍ الخُزَاعِيِّ، فَتَزَوَّجَ قَرِيبَةَ مُعَاوِيَةُ، وَتَزَوَّجَ الأُخْرَى أَبُو جَهْمٍ، فَلَمَّا أَبَى الكُفَّارُ أَنْ يُقِرُّوا بِأَدَاءِ مَا أَنْفَقَ المُسْلِمُونَ عَلَى أَزْوَاجِهِمْ، أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَإِنْ فَاتَكُمْ شَيْءٌ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ إِلَى الكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ} [الممتحنة: 11] وَالعَقْبُ مَا يُؤَدِّي المُسْلِمُونَ إِلَى مَنْ هَاجَرَتِ امْرَأَتُهُ مِنَ الكُفَّارِ، فَأَمَرَ أَنْ يُعْطَى مَنْ ذَهَبَ لَهُ زَوْجٌ مِنَ المُسْلِمِينَ مَا أَنْفَقَ مِنْ صَدَاقِ نِسَاءِ الكُفَّارِ اللَّائِي هَاجَرْنَ، وَمَا نَعْلَمُ أَنَّ أَحَدًا مِنَ الْمُهَاجِرَاتِ ارْتَدَّتْ بَعْدَ إِيمَانِهَا، وَبَلَغَنَا أَنَّ أَبَا بَصِيرِ بْنَ أَسِيدٍ [ص:198] الثَّقَفِيَّ قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُؤْمِنًا مُهَاجِرًا فِي المُدَّةِ، فَكَتَبَ الأَخْنَسُ بْنُ شَرِيقٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ أَبَا بَصِيرٍ، فَذَكَرَ الحَدِيثَ
کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان
باب : جہاد میں شرطیں لگانا اور کافروں کے ساتھ صلح کرنے میں اور شرطوں کا لکھنا
عقیل نے زہری سے بیان کیا‘ ان سے عروہ نے اوران سے عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کا ( جو مکہ سے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہجر ت کرکے مدینہ آتی تھیں ) امتحان لیتے تھے ( زہری نے ) بیان کیا کہ ہم تک یہ روایت پہنچی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ مسلمان وہ سب کچھ ان مشرکوں کو واپس کر دیں جو انہوں نے اپنی ان بیویوں پر خرچ کیا ہوجو ( اب مسلمان ہوکر ) ہجرت کر آئی ہیں اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رکھیں تو عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دو بیویوں قریبہ بنت ابی امیہ اور ایک جرول خزاعی کی لڑکی کو طلاق دے دی ۔ بعد میں قریبہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ نے شادی کرلی تھی ( کیونکہ اس وقت معاویہ مسلمان نہیں ہوئے تھے ) اور دوسری بیوی سے ابو جہم نے شاد ی کر لی تھی لیکن جب کفار نے مسلمانوں کے ان اخراجات کو ادا کرنے سے انکار کیا جو انہوں نے اپنی ( کافرہ ) بیویوں پر کئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ” اور رتمہاری بیویوں میں سے کوئی کافروں کے یہاں چلی گئی تو وہ معاوضہ تم خود ہی لے لو “ یہ وہ معاوضہ تھا جو مسلمان کفار میں سے اس شخص کو دیتے جس کی بیوی ہجرت کرکے ( مسلمان ہونے کے بعد کسی مسلمان کے نکاح میں آگئی ہو ) پس اللہ نے اب یہ حکم دیاکہ جس مسلمان کی بیوی مرتد ہوکر ( کفار کے یہاں ) چلی جائے اسکے ( مہر و نفقہ کے ) اخراجات ان کفار کی عورتوں کے مہر سے ادا کردئے جائیں جو ہجرت کر کے آگئی ہیں ( اور کسی مسلمان نے ان سے نکاح کرلیا ہے ) اگر چہ ہمارے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ کوئی مہاجرہ بھی ایمان کے بعد مرتد ہوئی ہوں اور ہمیں یہ روایت بھی معلوم ہوئی کہ ابو بصیر بن اسید ثقفی رضی اللہ عنہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مومن و مہاجر کی حیثیت سے معاہدہ کی مدت کے اندر ہی حاضر ہوئے تو اخنس بن شریق نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تحریر لکھی جس میں اس نے ( ابو بصیر رضی اللہ عنہ کی واپسی کا ) مطالبہ آپ سے کیا تھا ۔ پھر انہوں نے حدیث پوری بیان کی ۔
تشریح :
تشریح : یہ واقعہ 6 ھ کا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیر کے دن ذی قعدہ کے آخر میں مدینہ سے عمرہ کا ارادہ کر کے نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات سو مسلمان تھے اور ستر اونٹ قربانی کے‘ ہر دس آدمی میں ایک اونٹ ۔ ایک روایت میں آپ کے ساتھیوں کی تعداد چودہ سو بتلائی ہے۔ آپ نے بسر بن سفیان کو قریش کی خبر لانے کے لئے بھیجا تھا‘ اس نے واپس آکر بتلایا کہ قریش کے لوگ آپ کے آنے کی خبرسن کر ذی طویٰ میں آگئے ہیں اور خالد بن ولید ان کے سواروں کے ساتھ کراع الغمیم نامی جگہ میں آٹھہرے ہیں‘ یہ جگہ مکہ سے دومیل پر ہے۔ اس روایت میں واقعہ حدیبیہ کی تفصیلات موجود ہیں۔ روایت میں قصویٰ اونٹنی کا ذکر ہے‘ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سواری کرتے تھے‘ یہ تمام اونٹوں میں آگے رہتی ‘آپ نے اس پر سوار ہو کر ہجرت کی تھی۔ روایت میں تہامہ کا ذکر ہے‘ یہ مکہ اور اس کے اطراف کی بستیوں کو کہتے ہیں۔ تہم گرمی کی شدت کو کہتے ہیں۔ یہ علاقہ بے حد گرم ہے‘ اسی لئے تہامہ نام سے موسوم ہوا۔ کعب بن لوی قریش کے جداعلیٰ ہیں۔ عوذالمطا فیل کا لفظ جو روایت میں آیا ہے اس کے دو معنی ہیں ایک بچہ دار اونٹنیاں جو ابھی بچہ جنی ہوں اور کافی دودھ دے رہی ہوں۔ دوسرے انسانوں کے بال بچے۔ دونوں صورتوں میں مطلب یہ ہے کہ قریش کے لو گ ان چشموں پر زیادہ دنوں تک رہنے کے لئے اپنے اونٹ اور اونٹنیاں اور بال بچے لے کر آئے ہیں تاکہ وہ عرصہ تک آپ سے جنگ کرتے رہیں۔ عروہ بن مسعود جو قریش کے نمائندہ بن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کی گفتگو کرنے آئے تھے‘ یہ چھ سال بعد خود مسلمان ہوکر مبلغ اسلام کی حیثیت سے اپنی قوم میں گئے تھے۔ آج یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھنا سمجھنانے کاخیال لے کر آئے تھے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب اس کا یہ جملہ سنا کہ یہ متفرق قبائل کے لوگ جو مسلمان ہو کر آپ کے ارد گرد جمع ہیں‘ در صورت شکست آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ جواباًازراہ غصہ کہا تھا کہ تو واپس جا کر اپنے معبود لات کی شرمگاہ چوس لے‘ یہ خیال ہرگزنہ کرنا کہ ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوچھوڑ کر چلے جائیں گے۔ مغیرہ بن شعبہ جس کو عروہ نے غدار قرار دیا تھا۔ کہتے ہیں یہ عروہ کے بھتیجے تھے‘ ایک ہونے والی جنگ میں جو مغیرہ کی قوم سے متعلق تھی‘ عروہ نے بچ بچاؤ کرادیا تھا۔ اس احسان کو جتلا رہے تھے۔ بنو کنانہ میں سے آنے والے کا نام حلیس بن علقمہ حارثی تھا۔ وہ حبشیوں کا سردار تھا‘ آپ نے اس کے بارے میں جو فرمایا وہ بالکل صحیح ثابت ہواکہ اس نے قربانی کے جانور کو دیکھ کر‘ مسلمانوں سے لبیک کے نعرے سن کر بڑے اچھے لفظوں میں مسلمانوں کا ذکرخیرکیا اور مسلمانوں کے حق میں سفارش کی۔ صلح حدیبیہ کا متن لکھنے والے حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے۔
تشریح : یہ واقعہ 6 ھ کا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیر کے دن ذی قعدہ کے آخر میں مدینہ سے عمرہ کا ارادہ کر کے نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات سو مسلمان تھے اور ستر اونٹ قربانی کے‘ ہر دس آدمی میں ایک اونٹ ۔ ایک روایت میں آپ کے ساتھیوں کی تعداد چودہ سو بتلائی ہے۔ آپ نے بسر بن سفیان کو قریش کی خبر لانے کے لئے بھیجا تھا‘ اس نے واپس آکر بتلایا کہ قریش کے لوگ آپ کے آنے کی خبرسن کر ذی طویٰ میں آگئے ہیں اور خالد بن ولید ان کے سواروں کے ساتھ کراع الغمیم نامی جگہ میں آٹھہرے ہیں‘ یہ جگہ مکہ سے دومیل پر ہے۔ اس روایت میں واقعہ حدیبیہ کی تفصیلات موجود ہیں۔ روایت میں قصویٰ اونٹنی کا ذکر ہے‘ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سواری کرتے تھے‘ یہ تمام اونٹوں میں آگے رہتی ‘آپ نے اس پر سوار ہو کر ہجرت کی تھی۔ روایت میں تہامہ کا ذکر ہے‘ یہ مکہ اور اس کے اطراف کی بستیوں کو کہتے ہیں۔ تہم گرمی کی شدت کو کہتے ہیں۔ یہ علاقہ بے حد گرم ہے‘ اسی لئے تہامہ نام سے موسوم ہوا۔ کعب بن لوی قریش کے جداعلیٰ ہیں۔ عوذالمطا فیل کا لفظ جو روایت میں آیا ہے اس کے دو معنی ہیں ایک بچہ دار اونٹنیاں جو ابھی بچہ جنی ہوں اور کافی دودھ دے رہی ہوں۔ دوسرے انسانوں کے بال بچے۔ دونوں صورتوں میں مطلب یہ ہے کہ قریش کے لو گ ان چشموں پر زیادہ دنوں تک رہنے کے لئے اپنے اونٹ اور اونٹنیاں اور بال بچے لے کر آئے ہیں تاکہ وہ عرصہ تک آپ سے جنگ کرتے رہیں۔ عروہ بن مسعود جو قریش کے نمائندہ بن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کی گفتگو کرنے آئے تھے‘ یہ چھ سال بعد خود مسلمان ہوکر مبلغ اسلام کی حیثیت سے اپنی قوم میں گئے تھے۔ آج یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھنا سمجھنانے کاخیال لے کر آئے تھے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب اس کا یہ جملہ سنا کہ یہ متفرق قبائل کے لوگ جو مسلمان ہو کر آپ کے ارد گرد جمع ہیں‘ در صورت شکست آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ جواباًازراہ غصہ کہا تھا کہ تو واپس جا کر اپنے معبود لات کی شرمگاہ چوس لے‘ یہ خیال ہرگزنہ کرنا کہ ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوچھوڑ کر چلے جائیں گے۔ مغیرہ بن شعبہ جس کو عروہ نے غدار قرار دیا تھا۔ کہتے ہیں یہ عروہ کے بھتیجے تھے‘ ایک ہونے والی جنگ میں جو مغیرہ کی قوم سے متعلق تھی‘ عروہ نے بچ بچاؤ کرادیا تھا۔ اس احسان کو جتلا رہے تھے۔ بنو کنانہ میں سے آنے والے کا نام حلیس بن علقمہ حارثی تھا۔ وہ حبشیوں کا سردار تھا‘ آپ نے اس کے بارے میں جو فرمایا وہ بالکل صحیح ثابت ہواکہ اس نے قربانی کے جانور کو دیکھ کر‘ مسلمانوں سے لبیک کے نعرے سن کر بڑے اچھے لفظوں میں مسلمانوں کا ذکرخیرکیا اور مسلمانوں کے حق میں سفارش کی۔ صلح حدیبیہ کا متن لکھنے والے حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے۔