كِتَابُ الشُّرُوطِ بَابُ إِذَا اشْتَرَطَ فِي المُزَارَعَةِ إِذَا شِئْتُ أَخْرَجْتُكَ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مَرَّارُ بْنُ حَمُّويَهْ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى أَبُو غَسَّانَ الكِنَانِيُّ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا فَدَعَ أَهْلُ خَيْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَامَ عُمَرُ خَطِيبًا، فَقَالَ: إِنَّ [ص:193] رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَامَلَ يَهُودَ خَيْبَرَ عَلَى أَمْوَالِهِمْ، وَقَالَ: «نُقِرُّكُمْ مَا أَقَرَّكُمُ اللَّهُ» وَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ خَرَجَ إِلَى مَالِهِ هُنَاكَ، فَعُدِيَ عَلَيْهِ مِنَ اللَّيْلِ، فَفُدِعَتْ يَدَاهُ وَرِجْلاَهُ، وَلَيْسَ لَنَا هُنَاكَ عَدُوٌّ غَيْرَهُمْ، هُمْ عَدُوُّنَا وَتُهْمَتُنَا وَقَدْ رَأَيْتُ إِجْلاَءَهُمْ، فَلَمَّا أَجْمَعَ عُمَرُ عَلَى ذَلِكَ أَتَاهُ أَحَدُ بَنِي أَبِي الحُقَيْقِ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، أَتُخْرِجُنَا وَقَدْ أَقَرَّنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَامَلَنَا عَلَى الأَمْوَالِ وَشَرَطَ ذَلِكَ لَنَا، فَقَالَ عُمَرُ: أَظَنَنْتَ أَنِّي نَسِيتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَيْفَ بِكَ إِذَا أُخْرِجْتَ مِنْ خَيْبَرَ تَعْدُو بِكَ قَلُوصُكَ لَيْلَةً بَعْدَ لَيْلَةٍ» فَقَالَ: كَانَتْ هَذِهِ هُزَيْلَةً مِنْ أَبِي القَاسِمِ، قَالَ: كَذَبْتَ يَا عَدُوَّ اللَّهِ، فَأَجْلاَهُمْ عُمَرُ، وَأَعْطَاهُمْ قِيمَةَ مَا كَانَ لَهُمْ مِنَ الثَّمَرِ، مَالًا وَإِبِلًا، وَعُرُوضًا مِنْ أَقْتَابٍ وَحِبَالٍ وَغَيْرِ ذَلِكَ رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَحْسِبُهُ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَصَرَهُ
کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان
باب : مزارعت میں مالک نے کاشکار سے یہ شرط لگائی کہ جب میں چاہوں گا تجھے بے دخل کر سکوں گا
ہم سے ابو احمد مرار بن حمویہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے محمد بن یحییٰ ابو غسان کنانی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب ان کے ہاتھ پاؤں خیبر والو ں نے توڑ ڈالے تو عمر رضی اللہ عنہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے‘ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر کے یہ ودیوں سے ان کی جائداد کا معاملہ کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں قائم رکھے ہم بھی قائم رکھیں گے اور عبداللہ بن عمر وہاں اپنے اموال کے سلسلے میں گئے تو رات میں ان کے ساتھ مار پیٹ کا معاملہ کیا گیا جس سے ان کے پاؤں ٹو ٹ گئے ۔ خیبر میں ان کے سوا اور کوئی ہمارا دشمن نہیں ‘ وہی ہمارے دشمن ہیں اور انہیں پر ہمیں شبہ ہے اس لئے میں انہیں جلا وطن کر دینا ہی مناسب جانتا ہوں ۔ جب عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا پختہ ارادہ کر لیا تو بنوابی حقیق ( ایک یہ ودی خاندان ) کاایک شخص تھا ’ آیا اور کہا یا امیرالمومنین کیا آپ ہمیں جلاوطن کردیں گے حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں باقی رکھا تھا اور ہم سے جائیداد کا ایک معاملہ بھی کیا تھا اور اس کی ہمیں خیبر میں رہنے دینے کی شرط بھی آپ نے لگائی تھی ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھول گیا ہوں ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ تمھارا کیا حال ہوگا جب تم خیبر سے نکالے جاؤ گے اور تمھارے اونٹ تمہیں راتوں رات لئے پھریں گے ۔ اس نے کہا یہ ابو قاسم ( حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مذاق تھا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا خدا کے دشمن ! تم نے جھوٹی بات کہی ۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں شہر بدر کردیا اور ان کے پھلوں کی کچھ نقد قیمت’ کچھ مال اور اونٹ اور دوسرے سامان یعنی کجاوے اور رسیوں کی صورت میں ادا کردی ۔ اس کی روایت حمادبن سلمہ نے عبید اللہ سے نقل کی ہے جیسا کہ مجھے نافع سے اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختصر طور پر ۔
تشریح :
تشریح : روایت کے شروع سند میں ابو احمد مرار بن حمویہ ہیں۔ جامع الصحیح میں ان سے اور ان کے شیخ سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ کو پیداوار وصول کرنے کے لئے خیبر بھیجا تھا۔ وہاں بدعہد یہودیوں نے موقع پاکر حضرت عبداللہ کو ایک چھت سے نیچے دھکیل دیا اور ان کے ہاتھ پیر توڑدیئے۔ ایسی ہی شرارتوں کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خیبر سے یہود کو جلاوطن کردیا۔ خیبر کی فتح کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مفتوحہ زمینات کا معاملہ خیبر کے یہودیوں سے کرلیا تھا اور کوئی مدت مقرر نہیں کی بلکہ یہ فرمایا کہ یہ معاملہ ہمیشہ کے لئے نہیں ہے بلکہ جب اللہ چاہے گایہ معاملہ ختم کردیا جائے گا۔ اسی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدخلافت میں ان کو بے دخل کرکے دوسری جگہ منتقل کرادیا۔ اس بد عہد قوم نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی’ اس لئے یہ قوم ملعون اور مطرود قرار پائی۔ اسی حدیث سے یہ نکلا کہ زمین کا مالک اگر کاشتکار کا کوئی قصور دیکھے تو اس کو بے دخل کرسکتا ہے گو وہ کام شروع کرچکا ہو مگر اس کے کام کا بدل دینا ہوگا جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا۔
تشریح : روایت کے شروع سند میں ابو احمد مرار بن حمویہ ہیں۔ جامع الصحیح میں ان سے اور ان کے شیخ سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ کو پیداوار وصول کرنے کے لئے خیبر بھیجا تھا۔ وہاں بدعہد یہودیوں نے موقع پاکر حضرت عبداللہ کو ایک چھت سے نیچے دھکیل دیا اور ان کے ہاتھ پیر توڑدیئے۔ ایسی ہی شرارتوں کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خیبر سے یہود کو جلاوطن کردیا۔ خیبر کی فتح کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مفتوحہ زمینات کا معاملہ خیبر کے یہودیوں سے کرلیا تھا اور کوئی مدت مقرر نہیں کی بلکہ یہ فرمایا کہ یہ معاملہ ہمیشہ کے لئے نہیں ہے بلکہ جب اللہ چاہے گایہ معاملہ ختم کردیا جائے گا۔ اسی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدخلافت میں ان کو بے دخل کرکے دوسری جگہ منتقل کرادیا۔ اس بد عہد قوم نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی’ اس لئے یہ قوم ملعون اور مطرود قرار پائی۔ اسی حدیث سے یہ نکلا کہ زمین کا مالک اگر کاشتکار کا کوئی قصور دیکھے تو اس کو بے دخل کرسکتا ہے گو وہ کام شروع کرچکا ہو مگر اس کے کام کا بدل دینا ہوگا جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا۔