‌صحيح البخاري - حدیث 2729

كِتَابُ الشُّرُوطِ بَابُ الشُّرُوطِ فِي الوَلاَءِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْنِي بَرِيرَةُ فَقَالَتْ: كَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ فِي كُلِّ عَامٍ، أُوقِيَّةٌ، فَأَعِينِينِي، فَقَالَتْ: إِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ وَيَكُونَ وَلاَؤُكِ لِي، فَعَلْتُ، فَذَهَبَتْ بَرِيرَةُ إِلَى أَهْلِهَا، فَقَالَتْ لَهُمْ: فَأَبَوْا عَلَيْهَا، فَجَاءَتْ مِنْ عِنْدِهِمْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ عَرَضْتُ ذَلِكِ عَلَيْهِمْ، فَأَبَوْا إِلَّا أَنْ يَكُونَ الوَلاَءُ لَهُمْ، فَسَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْ عَائِشَةُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «خُذِيهَا وَاشْتَرِطِي لَهُمُ الوَلاَءَ، فَإِنَّمَا الوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ»، فَفَعَلَتْ عَائِشَةُ ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «مَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا كَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَهُوَ بَاطِلٌ وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ قَضَاءُ اللَّهِ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ، وَإِنَّمَا الوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2729

کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان باب : ولاء میں شرط لگانا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا ، انہوں نے ہشام بن عروہ سے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میرے پاس بریرہ رضی اللہ عنہا آئیں اور کہنے لگیں کہ میں نے اپنے مالک سے نواوقیہ چاندی پر مکاتبت کرلی ہے ، ہر سال ایک اوقیہ دینا ہوگا ۔ آپ بھی میری مدد کیجئے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اگر تمہارے مالک چاہیں تو میں ایک دم انہیں اتنی قیمت ادا کرسکتی ہوں ۔ لیکن تمہاری ولاءمیرے ساتھ قائم ہوگی ۔ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے مالکوں کے یہاں گئیں اور ان سے اس صورت کا ذکر کیا لیکن انہوں نے ولاءکے لیے انکار کیا ۔ جب وہ ان کے یہاں سے واپس ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرماتھے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے مالکوں کے سامنے یہ صورت رکھی تھی ، لیکن وہ کہتے تھے کہ ولاء انہیں کے ساتھ قائم رہے گی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ بات سنی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صورت حال سے آگاہ کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو انہیں خرید لے اور انہیں ولاءکی شرط لگانے دے ۔ ولاءتو اسی کے ساتھ قائم ہوسکتی ہے جو آزاد کرے ۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ میں گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدوثناءکے بعد فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کا کوئی پتہ کتاب اللہ میں نہیں ہے ایسی کوئی بھی شرط جس کا پتہ کتاب اللہ میں نہ ہو باطل ہے خواہ سو شرطیں کیوں نہ لگالی جائیں ۔ اللہ کا فیصلہ ہی حق ہے اور اللہ کی شرطیں ہی پائیدار ہیں اور ولاءتو اسی کو ملے گی جو آزاد کرے گا ۔
تشریح : مقصد باب یہ کہ ولاءمیں ایسی غلط شرط لگانا منع ہے جس کا کوئی ثبوت کتاب اللہ سے نہ ہو۔ ہاں جائز شرطیں جو فریقین طے کرلیں وہ تسلیم ہوں گی۔ اس روایت میں نو اوقیہ کا ذکر ہے۔ دوسری روایت میں پانچ کا جس کی تطبیق یوں دی گئی ہے کہ شاید نواوقیہ پر معاملہ ہو اور پانچ باقی رہ گئے ہوں جن کے لیے بریرہ رضیاللہ عنہا کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آنا پڑا ممکن ہے نو کے لئے راوی کا وہم ہو اور پانچ ہی صحیح ہو۔ روایات سے پہلے خیال کو ترجیح معلوم ہوتی ہے جیسا کہ فتح الباری میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ مقصد باب یہ کہ ولاءمیں ایسی غلط شرط لگانا منع ہے جس کا کوئی ثبوت کتاب اللہ سے نہ ہو۔ ہاں جائز شرطیں جو فریقین طے کرلیں وہ تسلیم ہوں گی۔ اس روایت میں نو اوقیہ کا ذکر ہے۔ دوسری روایت میں پانچ کا جس کی تطبیق یوں دی گئی ہے کہ شاید نواوقیہ پر معاملہ ہو اور پانچ باقی رہ گئے ہوں جن کے لیے بریرہ رضیاللہ عنہا کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آنا پڑا ممکن ہے نو کے لئے راوی کا وہم ہو اور پانچ ہی صحیح ہو۔ روایات سے پہلے خیال کو ترجیح معلوم ہوتی ہے جیسا کہ فتح الباری میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔