‌صحيح البخاري - حدیث 2725

كِتَابُ الشُّرُوطِ بَابُ الشُّرُوطِ الَّتِي لاَ تَحِلُّ فِي الحُدُودِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الجُهَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُمَا قَالاَ: إِنَّ رَجُلًا مِنَ الأَعْرَابِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْشُدُكَ اللَّهَ إِلَّا قَضَيْتَ لِي بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَالَ الخَصْمُ الآخَرُ: وَهُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، نَعَمْ فَاقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَأْذَنْ لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ، قَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، وَإِنِّي أُخْبِرْتُ أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ، فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ، وَوَلِيدَةٍ، فَسَأَلْتُ أَهْلَ العِلْمِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّمَا عَلَى ابْنِي جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَأَنَّ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا الرَّجْمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، الوَلِيدَةُ وَالغَنَمُ رَدٌّ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ، وَتَغْرِيبُ عَامٍ، اغْدُ يَا أُنَيْسُ إِلَى امْرَأَةِ هَذَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا»، قَالَ: فَغَدَا عَلَيْهَا، فَاعْتَرَفَتْ، فَأَمَرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرُجِمَتْ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2725

کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان باب : جو شرطیں حدود اللہ میں جائز نہیں ہیں ان کا بیان ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان ، ان سے ابن شہا ب نے ، ا ن سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابو ہر یرہ اور ز ید بن خالدجہنی رضی اللہ عنہما نے بیا ن کیا کہ ایک دیہا تی صحا بی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ ! میں آپ سے اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ آپ میرا فیصلہ کتاب اللہ سے کردیں ۔ دوسرے فریق نے جو اس سے زیادہ سمجھ دار تھا ، کہا کہ جی ہاں ! کتاب اللہ سے ہی ہمارا فیصلہ فرمائیے ، اور مجھے ( اپنا مقدمہ پیش کرنے کی ) اجازت دیجئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پیش کر ۔ اس نے بیان کرنا شروع کیا کہ میرا بیٹا ان صاحب کے یہاں مزدور تھا ۔ پھر اس نے ان کی بیوی سے زنا کرلیا ، جب مجھے معلوم ہوا کہ ( زنا کی سزا میں ) میرا لڑکا رجم کردیا جائے گا تو میں نے اس کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک باندی دی ، پھر علم والوں سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میرے لڑکے کو ( زنا کی سزا میں کیوں کہ وہ غیر شادی شدہ تھا ) سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے شہر بدر کردیا جائے گا ۔ البتہ اس کی بیوی رجم کردی جائے گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ ہی سے کروں گا ۔ باندی اور بکریاں تمہیں واپس ملیں گی اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کیا جائے گا ۔ اچھا انیس ! تم اس عورت کے یہاں جاو¿ ، اگر وہ بھی ( زناکا ) اقرار کرلے ، تو اسے رجم کردو ( کیوں کہ وہ شادی شدہ تھی ) بیان کیا کہ انیس رضی اللہ عنہ اس عورت کے یہاں گئے اور اس نے اقرار کرلیا ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے وہ رجم کی گئی ۔
تشریح : سو بکریاں اور ایک لونڈی اس کی طرف سے فدیہ دے کر اس کو چھڑالیا، ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کیوں کہ اس نے زنا کی حد کے بدلے یہ شرط کی سوبکریاں اور ایک لونڈی اس کی طرف سے دوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو باطل اور لغو قرار دیا۔ حدود اللہ کے حقوق میں سے ہیں۔ جوبندوں کی باہمی صلح سے ٹالی نہیں جاسکتی۔ جب بھی کوئی ایسا جرم ثابت ہوگا حد ضرور جاری کی جائے گی۔ البتہ جو سزائیں انسانی حقوق کی وجہ سے دی جاتی ہیں ان میں باہمی صلح کی صورتیں نکالی جاسکتی ہیں۔ زانیہ عورت کے لیے چار گواہوں کا ہونا ضروری ہے جو چشم دید بیان دیں، یا عورت و مرد خود اقرار کرلیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ حدود کا قائم کرنا اسلامی شرعی اسٹیٹ کا کام ہے۔ جہاں قوانین اسلامی کا اجراءمسلم ہو۔ اگر کوئی اسٹیٹ اسلامی ہونے کے دعویٰ کے ساتھ حدود اللہ کو قائم نہیں کرتی تو وہ عنداللہ سخت مجرم ہے۔ زانی مرد غیرشادی شدہ کی حدود ہے جو یہاں مذکور ہوئی۔ رجم کے لیے آخرمیں خلیفہ وقت کا حکم ضروری ہوگا۔ سو بکریاں اور ایک لونڈی اس کی طرف سے فدیہ دے کر اس کو چھڑالیا، ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کیوں کہ اس نے زنا کی حد کے بدلے یہ شرط کی سوبکریاں اور ایک لونڈی اس کی طرف سے دوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو باطل اور لغو قرار دیا۔ حدود اللہ کے حقوق میں سے ہیں۔ جوبندوں کی باہمی صلح سے ٹالی نہیں جاسکتی۔ جب بھی کوئی ایسا جرم ثابت ہوگا حد ضرور جاری کی جائے گی۔ البتہ جو سزائیں انسانی حقوق کی وجہ سے دی جاتی ہیں ان میں باہمی صلح کی صورتیں نکالی جاسکتی ہیں۔ زانیہ عورت کے لیے چار گواہوں کا ہونا ضروری ہے جو چشم دید بیان دیں، یا عورت و مرد خود اقرار کرلیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ حدود کا قائم کرنا اسلامی شرعی اسٹیٹ کا کام ہے۔ جہاں قوانین اسلامی کا اجراءمسلم ہو۔ اگر کوئی اسٹیٹ اسلامی ہونے کے دعویٰ کے ساتھ حدود اللہ کو قائم نہیں کرتی تو وہ عنداللہ سخت مجرم ہے۔ زانی مرد غیرشادی شدہ کی حدود ہے جو یہاں مذکور ہوئی۔ رجم کے لیے آخرمیں خلیفہ وقت کا حکم ضروری ہوگا۔