كِتَابُ الشُّرُوطِ بَابُ إِذَا اشْتَرَطَ البَائِعُ ظَهْرَ الدَّابَّةِ إِلَى مَكَانٍ مُسَمًّى جَازَ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَامِرًا، يَقُولُ: حَدَّثَنِي جَابِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ كَانَ يَسِيرُ عَلَى جَمَلٍ لَهُ قَدْ أَعْيَا، فَمَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَضَرَبَهُ فَدَعَا لَهُ [ص:190]، فَسَارَ بِسَيْرٍ لَيْسَ يَسِيرُ مِثْلَهُ، ثُمَّ قَالَ: «بِعْنِيهِ بِوَقِيَّةٍ»، قُلْتُ: لاَ، ثُمَّ قَالَ: «بِعْنِيهِ بِوَقِيَّةٍ»، فَبِعْتُهُ، فَاسْتَثْنَيْتُ حُمْلاَنَهُ إِلَى أَهْلِي، فَلَمَّا قَدِمْنَا أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ وَنَقَدَنِي ثَمَنَهُ، ثُمَّ انْصَرَفْتُ، فَأَرْسَلَ عَلَى إِثْرِي، قَالَ: «مَا كُنْتُ لِآخُذَ جَمَلَكَ، فَخُذْ جَمَلَكَ ذَلِكَ، فَهُوَ مَالُكَ»، قَالَ شُعْبَةُ: عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرٍ: أَفْقَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ إِلَى المَدِينَةِ، وَقَالَ إِسْحَاقُ: عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مُغِيرَةَ: فَبِعْتُهُ عَلَى أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرِهِ، حَتَّى أَبْلُغَ المَدِينَةَ، وَقَالَ عَطَاءٌ، وَغَيْرُهُ: «لَكَ ظَهْرُهُ إِلَى المَدِينَةِ» وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ المُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ: شَرَطَ ظَهْرَهُ إِلَى المَدِينَةِ، وَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ: عَنْ جَابِرٍ: وَلَكَ ظَهْرُهُ حَتَّى تَرْجِعَ، وَقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: عَنْ جَابِرٍ: أَفْقَرْنَاكَ ظَهْرَهُ إِلَى المَدِينَةِ، وَقَالَ الأَعْمَشُ: عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرٍ: تَبَلَّغْ عَلَيْهِ إِلَى أَهْلِكَ، وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ، وَابْنُ إِسْحَاقَ: عَنْ وَهْبٍ، عَنْ جَابِرٍ: اشْتَرَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَقِيَّةٍ. وَتَابَعَهُ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ جَابِرٍ، وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: عَنْ عَطَاءٍ، وَغَيْرِهِ، عَنْ جَابِرٍ: أَخَذْتُهُ بِأَرْبَعَةِ دَنَانِيرَ، «وَهَذَا يَكُونُ وَقِيَّةً عَلَى حِسَابِ الدِّينَارِ بِعَشَرَةِ دَرَاهِمَ وَلَمْ يُبَيِّنِ الثَّمَنَ»، مُغِيرَةُ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ، وَابْنُ المُنْكَدِرِ، وَأَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، وَقَالَ الأَعْمَشُ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرٍ: وَقِيَّةُ ذَهَبٍ، وَقَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرٍ: بِمِائَتَيْ دِرْهَمٍ، وَقَالَ دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ، عَنْ جَابِرٍ: اشْتَرَاهُ بِطَرِيقِ تَبُوكَ، أَحْسِبُهُ قَالَ: بِأَرْبَعِ أَوَاقٍ، وَقَالَ أَبُو نَضْرَةَ: عَنْ جَابِرٍ: اشْتَرَاهُ بِعِشْرِينَ دِينَارًا وَقَوْلُ الشَّعْبِيِّ: بِوَقِيَّةٍ أَكْثَرُ الِاشْتِرَاطُ أَكْثَرُ وَأَصَحُّ عِنْدِي قَالَهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ
کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان
باب : اگر بیچنے والے نے کسی خاص مقام تک سواری کی شرط لگائی تو یہ جائز ہے
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا ، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے عامر سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ ( ایک غزوہ کے موقع پر ) اپنے اونٹ پر سوار آ رہے تھے ، اونٹ تھک گیا تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کو ایک ضرب لگائی اور اس کے حق میں دعا فرمائی ، چنانچہ اونٹ اتنی تیزی سے چلنے لگا کہ کبھی اس طرح نہیں چلا تھا ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اسے ایک اوق یہ میں مجھے بیچ دو ۔ میں نے انکار کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر پھر میں نے آپ کے ہاتھ بیچ دیا ، لیکن اپنے گھر تک اس پر سواری کو مستثنیٰ کرالیا ۔ پھر جب ہم ( مدینہ ) پہنچ گئے ، تو میں نے اونٹ آپ کو پیش کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت بھی ادا کردی ، لیکن جب میں واپس ہونے لگا تو میرے پیچھے ایک صاحب کو مجھے بلانے کے لیے بھیجا ( میں حاضر ہوا تو ) آپ نے فرمایا کہ میں تمہارا اونٹ کوئی لے تھوڑا ہی رہا تھا ، اپنا اونٹ لے جاو¿ ، یہ تمہارا ہی مال ہے ۔ ( اور قیمت واپس نہیں لی ) شعبہ نے مغیرہ کے واسطے سے بیان کیا ، ان سے عامر نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تک اونٹ پر مجھے سوار ہونے کی اجازت دی تھی ، اسحاق نے جریر سے بیان کیا اور ان سے مغیرہ نے کہ ( جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا ) پس میں نے اونٹ اس شرط پر بیچ دیا کہ مدینہ پہنچنے تک اس پر میں سوار رہوں گا ۔ عطاءوغیرہ نے بیان کیا کہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ) اس پر مدینہ تک کی سواری تمہاری ہے ۔ محمد بن منکدر نے جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ انہوں نے مدینہ تک سواری کی شرط لگائی تھی ۔ زید بن اسلم نے جابر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بیان کیا کہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ) مدینہ تک اس پر تم ہی رہو گے ۔ ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ مدینہ تک کی سواری کی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دی تھی ۔ اعمش نے سالم سے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) اپنے گھر تک تم اسی پر سوار ہوکے جاو¿ ۔ عبیداللہ اور ابن اسحاق نے وہب سے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ اونٹ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اوق یہ میں خریدا تھا ۔ اس روایت کی متابعت زید بن اسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے کی ہے ۔ ابن جریج نے عطاءوغیرہ سے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے ( کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ) میں تمہارا یہ اونٹ چار دینار میں لیتا ہوں ، اس حساب سے کہ ایک دینار دس درہم کا ہوتا ہے ، چار دینار کا ایک اوق یہ ہوگا ۔ مغیرہ نے شعبی کے واسطہ سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے ( ان کی روایت میں اور ) اسی طرح ابن المنکدر اور ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی روایت میں قیمت کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اعمش نے سالم سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی روایت میں ایک اوق یہ سونے کی وضاحت کی ہے ۔ ابواسحاق نے سالم سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی روایت میں دو سو درہم بیان کیے ہیں اور داود بن قیس نے بیان کیا ، ان سے عبیداللہ بن مقسم نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ تبوک کے راستے میں ( غزوہ سے واپس ہوتے ہوئے ) خریدا تھا ۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا کہ چار اوق یہ میں ( خریدا تھا ) ابونضرہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت میں بیان کیا کہ بیس دینار میں خریدا تھا ۔ شعبی کے بیان کے مطابق ایک اوق یہ ہی زیادہ روایتوں میں ہے ۔ اسی طرح شرط لگانا بھی زیادہ روایتوں سے ثابت ہے اور میرے نزدیک صحیح بھی یہی ہے ، یہ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے فرمایا ۔
تشریح :
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت علم یہاں سے معلوم ہوتی ہے کہ ایک ایک حدیث کے کتنے کتنے طریق ان کو محفوظ تھے۔ حاصل ان سب روایات کے ذکر کرنے سے یہ ہے کہ اکثر روایتوں میں سواری کی شرط کا ذکر ہے، جو ترجمہ باب سے معلوم ہوا کہ بیع میں ایسی شرط لگانا درست ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے بعد ہمارے شیخ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا مرتبہ ہے۔ شاید کوئی کتاب حدیث کی ایسی ہو جو ان کی نظر سے نہ گزری ہو اور صحیح بخاری تو الحمد کی طرح ان کو یاد تھی۔ یا اللہ! ہم کو عالم برزخ میں امام بخاری اور ابن تیمیہ اور حافظ ابن حجر کی زیارت نصیب کر اور حقیر محمد داؤد راز کو بھی ان بزرگوں کے خادموں میں شمار فرمانا۔ آمین۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت علم یہاں سے معلوم ہوتی ہے کہ ایک ایک حدیث کے کتنے کتنے طریق ان کو محفوظ تھے۔ حاصل ان سب روایات کے ذکر کرنے سے یہ ہے کہ اکثر روایتوں میں سواری کی شرط کا ذکر ہے، جو ترجمہ باب سے معلوم ہوا کہ بیع میں ایسی شرط لگانا درست ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے بعد ہمارے شیخ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا مرتبہ ہے۔ شاید کوئی کتاب حدیث کی ایسی ہو جو ان کی نظر سے نہ گزری ہو اور صحیح بخاری تو الحمد کی طرح ان کو یاد تھی۔ یا اللہ! ہم کو عالم برزخ میں امام بخاری اور ابن تیمیہ اور حافظ ابن حجر کی زیارت نصیب کر اور حقیر محمد داؤد راز کو بھی ان بزرگوں کے خادموں میں شمار فرمانا۔ آمین۔