كِتَابُ الصُّلْحِ بَابٌ: هَلْ يُشِيرُ الإِمَامُ بِالصُّلْحِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ الأَعْرَجِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ كَانَ لَهُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حَدْرَدٍ الأَسْلَمِيِّ مَالٌ، فَلَقِيَهُ، فَلَزِمَهُ حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، فَمَرَّ بِهِمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «يَا كَعْبُ» فَأَشَارَ بِيَدِهِ كَأَنَّهُ يَقُولُ: النِّصْفَ، فَأَخَذَ نِصْفَ مَا لَهُ عَلَيْهِ، وَتَرَكَ نِصْفًا
کتاب: صلح کے مسائل کا بیان
باب : کیا امام صلح کے لیے فریقین کو اشارہ کرسکتا ہے ؟
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے جعفر بن ربیعہ نے ، ان سے اعرج نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن کعب بن مالک نے بیان کیا اور ان سے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ عبداللہ بن حدرد اسلمی رضی اللہ عنہ پر ان کا قرض تھا ، ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان کا پیچھا کیا ، ( آخر تکرار میں ) دونوں کی آواز بلند ہوگئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے تو آپ نے فرمایا ، اے کعب ! اور اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا ، جےسے آپ کہہ رہے ہوں کہ آدھا ( قرض کم کردے ) چنانچہ انہوں نے آدھا قرض چھوڑ دیا اور آدھا لیا ۔
تشریح :
اسلامی تعلیم یہی ہے کہ اگر مقروض نادار ہے تو اس کو ڈھیل دینا یا پھر معاف کردینا ہی بہتر ہے۔ جو قرض خواہ کے اعمال خیر میں لکھا جاے گا وان کان ذو عسر فنظر الي مےسر و ان تصدقوا خیر لکم ( البقرۃ: 280 ) آیت قرآنی کا یہی مطلب ہے۔
اسلامی تعلیم یہی ہے کہ اگر مقروض نادار ہے تو اس کو ڈھیل دینا یا پھر معاف کردینا ہی بہتر ہے۔ جو قرض خواہ کے اعمال خیر میں لکھا جاے گا وان کان ذو عسر فنظر الي مےسر و ان تصدقوا خیر لکم ( البقرۃ: 280 ) آیت قرآنی کا یہی مطلب ہے۔