كِتَابُ الصُّلْحِ بَابٌ: هَلْ يُشِيرُ الإِمَامُ بِالصُّلْحِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي الرِّجَالِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أُمَّهُ عَمْرَةَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ: سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَ خُصُومٍ بِالْبَابِ عَالِيَةٍ أَصْوَاتُهُمَا، وَإِذَا أَحَدُهُمَا يَسْتَوْضِعُ الآخَرَ، وَيَسْتَرْفِقُهُ فِي شَيْءٍ، وَهُوَ يَقُولُ: وَاللَّهِ لاَ أَفْعَلُ، فَخَرَجَ عَلَيْهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَيْنَ المُتَأَلِّي عَلَى اللَّهِ، لاَ يَفْعَلُ المَعْرُوفَ؟»، فَقَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَهُ أَيُّ ذَلِكَ أَحَبَّ
کتاب: صلح کے مسائل کا بیان
باب : کیا امام صلح کے لیے فریقین کو اشارہ کرسکتا ہے ؟
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا ، ان سے سلیمان بن ہلال نے ، ان سے یحییٰ بن سعید نے ، ان سے ابوالرجال محمد بن عبدالرحمن نے ، ان سے ان کی والدہ عمرہ بنت عبدالرحمن نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے پر دو جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی جو بلند ہوگئی تھی ۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے سے قرض میں کچھ کمی کرنے اور تقاضے میں کچھ نرمی برتنے کے لیے کہہ رہا تھا اور دوسرا کہتا تھا کہ اللہ کی قسم ! میں یہ نہیں کروں گا ۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اور فرمایا کہ اس بات پر اللہ کی قسم کھانے والے صاحب کہاں ہیں ؟ کہ وہ ایک اچھا کام نہیں کریں گے ۔ ان صحابی نے عرض کیا ، میں ہی ہوں یا رسول اللہ ! اب میرا بھائی جو چاہتا ہے وہی مجھ کو بھی پسند ہے ۔
تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دو میں صلح کا ارشاد فرمایا، اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ حافظ نے کہا، ان لوگوں کے نام معلوم نہیں ہوئے۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آپ نے اس شخص کو پوچھا تھا وہ کہاں ہے جو اچھی بات نہ کرنے کے لیے قسم کھارہا تھا۔ گویا آپ نے اس کے فعل کو برا سمجھا اور صلح کا اشارہ کیا۔ وہ سمجھ گیا اور آپ کے پوچھتے ہی خود بخود کہنے لگا میرا مقروض جو چاہے وہ مجھ کو منظور ہے۔ اس شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و احترام میں فوراً ہی آپ کا اشارہ پاکر مقروض کے قرض میں تخفیف کا اعلان کردیا۔ بڑوں کے احترام میں انسان اپنا کچھ نقصان بھی برداشت کرلے تو بہتر ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دو میں صلح کا ارشاد فرمایا، اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ حافظ نے کہا، ان لوگوں کے نام معلوم نہیں ہوئے۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آپ نے اس شخص کو پوچھا تھا وہ کہاں ہے جو اچھی بات نہ کرنے کے لیے قسم کھارہا تھا۔ گویا آپ نے اس کے فعل کو برا سمجھا اور صلح کا اشارہ کیا۔ وہ سمجھ گیا اور آپ کے پوچھتے ہی خود بخود کہنے لگا میرا مقروض جو چاہے وہ مجھ کو منظور ہے۔ اس شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و احترام میں فوراً ہی آپ کا اشارہ پاکر مقروض کے قرض میں تخفیف کا اعلان کردیا۔ بڑوں کے احترام میں انسان اپنا کچھ نقصان بھی برداشت کرلے تو بہتر ہے۔