‌صحيح البخاري - حدیث 2704

كِتَابُ الصُّلْحِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺلِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّؓ: صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: سَمِعْتُ الحَسَنَ، يَقُولُ: اسْتَقْبَلَ وَاللَّهِ الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ مُعَاوِيَةَ بِكَتَائِبَ أَمْثَالِ الجِبَالِ، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ العَاصِ: إِنِّي لَأَرَى كَتَائِبَ لاَ تُوَلِّي حَتَّى تَقْتُلَ أَقْرَانَهَا، فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ وَكَانَ وَاللَّهِ خَيْرَ الرَّجُلَيْنِ: أَيْ عَمْرُو إِنْ قَتَلَ هَؤُلاَءِ هَؤُلاَءِ، وَهَؤُلاَءِ هَؤُلاَءِ مَنْ لِي بِأُمُورِ النَّاسِ مَنْ لِي بِنِسَائِهِمْ مَنْ لِي بِضَيْعَتِهِمْ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ رَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ: عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ كُرَيْزٍ، فَقَالَ: اذْهَبَا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ، فَاعْرِضَا عَلَيْهِ، وَقُولاَ لَهُ: وَاطْلُبَا إِلَيْهِ، فَأَتَيَاهُ، فَدَخَلاَ عَلَيْهِ فَتَكَلَّمَا، وَقَالاَ لَهُ: فَطَلَبَا إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُمَا الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ: إِنَّا بَنُو عَبْدِ المُطَّلِبِ، قَدْ أَصَبْنَا مِنْ هَذَا المَالِ، وَإِنَّ هَذِهِ الأُمَّةَ قَدْ عَاثَتْ فِي دِمَائِهَا، قَالاَ: فَإِنَّهُ يَعْرِضُ عَلَيْكَ كَذَا وَكَذَا، وَيَطْلُبُ إِلَيْكَ وَيَسْأَلُكَ قَالَ: فَمَنْ لِي بِهَذَا، قَالاَ: نَحْنُ لَكَ بِهِ، فَمَا سَأَلَهُمَا شَيْئًا إِلَّا قَالاَ: نَحْنُ لَكَ بِهِ، فَصَالَحَهُ، فَقَالَ الحَسَنُ: وَلَقَدْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ يَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى المِنْبَرِ وَالحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَى جَنْبِهِ، وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً، وَعَلَيْهِ أُخْرَى وَيَقُولُ: «إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ المُسْلِمِينَ»، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: إِنَّمَا ثَبَتَ لَنَا سَمَاعُ الحَسَنِ مِنْ أَبِي بَكْرَةَ، بِهَذَا الحَدِيثِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2704

کتاب: صلح کے مسائل کا بیان باب : حضرت حسن بن علیؓ کے متعلق نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ میرا یہ بیٹا ہے ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت امام حسن بصری سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ قسم اللہ کی جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما ( معاو یہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں ) پہاڑوں میں لشکر لے کر پہنچے ، تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا ( جو امیر معاو یہ رضی اللہ عنہ کے مشیر خاص تھے ) کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو نیست و نابود کیے بغیر واپس نہ جائےگا ۔ معاو یہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا اور قسم اللہ کی ، وہ ان دونوں اصحاب میں زیادہ اچھے تھے ، کہ اے عمرو ! اگر اس لشکر نے اس لشکر کو قتل کردیا ، یا اس نے اس کو کردیا ، تو ( اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ) لوگوں کے امور ( کی جواب دہی کے لیے ) میرے ساتھ کون ذمہ داری لے گا ، لوگوں کی بیوہ عورتوں کی خبر گیری کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہوگا ۔ لوگوں کی آل اولاد کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہوگا ۔ آخر معاو یہ رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ کے یہاں قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے دو آدمی بھیجے ۔ عبدالرحمن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز ، آپ نے ان دونوں سے فرمایا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے یہاں جاو¿ اور ان کے سامنے صلح پیش کرو ، ان سے اس پر گفتگو کرو اور فیصلہ انہیں کی مرضی پر چھوڑ دو ۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور آپ سے گفتگو کی اور فیصلہ آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا ۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، ہم بنو عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہم کو خلافت کی وجہ سے روپ یہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت ہوگئی ہے اور ہمارے ساتھ یہ لوگ ہیں ، یہ خون خرابہ کرنے میں طاق ہیں ، بغیر روپ یہ دئیے ماننے والے نہیں ۔ وہ کہنے لگے حضرت امیر معاو یہ رضی اللہ عنہ آپ کو اتنا اتنا روپ یہ دینے پر راضی ہیں اور آپ سے صلح چاہتے ہیں ۔ فیصلہ آپ کی مرضی پر چھوڑا ہے اور آپ سے پوچھا ہے ۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا ؟ ان دونوں قاصدوں نے کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں ۔ حضرت حسن نے جس چیز کے متعلق بھی پوچھا ، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں ۔ آخر آپ نے صلح کرلی ، پھرفرمایا کہ میں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا ، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے ، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا ۔ امام بخاری نے کہا مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ ہمارے نزدیک اس حدیث سے حسن بصری کا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت ہوا ہے ۔
تشریح : حدیث میں حضرت حسن اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کی باہمی صلح کا ذکر ہے اور اس سے صلح کی اہمیت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ اس مقصد کے تحت مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو یہاں لائے۔ اس صلح کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشن گوئی فرمائی تھی، جو حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی اور اس سے مسلمانوں کی باہمی خون ریزی رک گئی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی عسکری طاقت اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی دو راندیشی پھر مصالحت کے لیے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی آمادگی، یہ جملہ حالات امت کے لیے بہت سے اسباق پیش کرتے ہیں۔ مگر صد افسوس کہ ان اسباق کو بہت کم مد نظر رکھاگیا، جس کی سزا امت ابھی تک بھگت رہی ہے۔ راوی کا قول وکان خیرالرجلین میں اشارہ حضرت امیر معاویہ اور عمروبن عاص رضی اللہ عنہما کی طرف ہے کہ حضرت معاویہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے بہتر تھے جو جنگ کے خواہاں نہیں تھے۔ حدیث میں حضرت حسن اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کی باہمی صلح کا ذکر ہے اور اس سے صلح کی اہمیت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ اس مقصد کے تحت مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو یہاں لائے۔ اس صلح کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشن گوئی فرمائی تھی، جو حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی اور اس سے مسلمانوں کی باہمی خون ریزی رک گئی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی عسکری طاقت اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی دو راندیشی پھر مصالحت کے لیے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی آمادگی، یہ جملہ حالات امت کے لیے بہت سے اسباق پیش کرتے ہیں۔ مگر صد افسوس کہ ان اسباق کو بہت کم مد نظر رکھاگیا، جس کی سزا امت ابھی تک بھگت رہی ہے۔ راوی کا قول وکان خیرالرجلین میں اشارہ حضرت امیر معاویہ اور عمروبن عاص رضی اللہ عنہما کی طرف ہے کہ حضرت معاویہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے بہتر تھے جو جنگ کے خواہاں نہیں تھے۔