كِتَابُ الصُّلْحِ بَابٌ: كَيْفَ يُكْتَبُ هَذَا: مَا صَالَحَ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ، وَفُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ، وَإِنْ لَمْ يَنْسُبْهُ إِلَى قَبِيلَتِهِ أَوْ نَسَبِهِ صحيح حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي القَعْدَةِ، فَأَبَى أَهْلُ مَكَّةَ أَنْ يَدَعُوهُ يَدْخُلُ مَكَّةَ حَتَّى [ص:185] قَاضَاهُمْ عَلَى أَنْ يُقِيمَ بِهَا ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ، فَلَمَّا كَتَبُوا الكِتَابَ، كَتَبُوا هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالُوا: لاَ نُقِرُّ بِهَا، فَلَوْ نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ مَا مَنَعْنَاكَ، لَكِنْ أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «أَنَا رَسُولُ اللَّهِ، وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ»، ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ: «امْحُ رَسُولُ اللَّهِ»، قَالَ: لاَ وَاللَّهِ لاَ أَمْحُوكَ أَبَدًا، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الكِتَابَ، فَكَتَبَ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، لاَ يَدْخُلُ مَكَّةَ سِلاَحٌ إِلَّا فِي القِرَابِ، وَأَنْ لاَ يَخْرُجَ مِنْ أَهْلِهَا بِأَحَدٍ، إِنْ أَرَادَ أَنْ يَتَّبِعَهُ، وَأَنْ لاَ يَمْنَعَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِهِ أَرَادَ أَنْ يُقِيمَ بِهَا، فَلَمَّا دَخَلَهَا وَمَضَى الأَجَلُ، أَتَوْا عَلِيًّا فَقَالُوا: قُلْ لِصَاحِبِكَ اخْرُجْ عَنَّا، فَقَدْ مَضَى الأَجَلُ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَبِعَتْهُمْ ابْنَةُ حَمْزَةَ: يَا عَمِّ يَا عَمِّ، فَتَنَاوَلَهَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَأَخَذَ بِيَدِهَا، وَقَالَ لِفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ: دُونَكِ ابْنَةَ عَمِّكِ، حَمَلَتْهَا، فَاخْتَصَمَ فِيهَا عَلِيٌّ، وَزَيْدٌ، وَجَعْفَرٌ، فَقَالَ عَلِيٌّ: أَنَا أَحَقُّ بِهَا وَهِيَ ابْنَةُ عَمِّي، وَقَالَ جَعْفَرٌ: ابْنَةُ عَمِّي وَخَالَتُهَا تَحْتِي، وَقَالَ زَيْدٌ: ابْنَةُ أَخِي، فَقَضَى بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا، وَقَالَ: «الخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الأُمِّ»، وَقَالَ لِعَلِيٍّ: «أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ»، وَقَالَ لِجَعْفَرٍ: «أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي»، وَقَالَ لِزَيْدٍ: «أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلاَنَا»
کتاب: صلح کے مسائل کا بیان
باب : صلح نامہ میں لکھنا کافی ہے یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر فلاں ولد فلاں اور فلاں ولد فلاں نے صلح کی اور خاندان اور نسب نامہ لکھنا ضروری نہیں ہے ۔
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا اسرائیل سے ، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ کے مہینے میں عمرہ کا احرام باندھا ۔ لیکن مکہ والوں نے آپ کوشہر میں داخل نہیں ہونے دیا ۔ آخر صلح اس پر ہوئی کہ ( آئندہ سال ) آپ مکہ میں تین روز قیام کریں گے ۔ جب صلح نامہ لکھا جانے لگا تو اس میں لکھا گیا کہ یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے ۔ لیکن مشرکین نے کہا کہ ہم تو اسے نہیں مانتے ۔ اگر ہمیں علم ہوجائے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو نہ روکیں ۔ بس آپ صرف محمد بن عبداللہ ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں رسول اللہ بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں ۔ اس کے بعد آپ نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹادو ، انہوں نے عرض کیا نہیں خدا کی قسم ! میں تو یہ لفظ کبھی نہ مٹاوں گا ۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دستاویز لی اور لکھا کہ یہ اس کی دستاویز ہے کہ محمد بن عبداللہ نے اس شرط پر صلح کی ہے کہ مکہ میں وہ ہتھیار میان میں رکھے بغیر داخل نہ ہوں گے ۔ اگر مکہ کا کوئی شخص ان کے ساتھ جانا چاہے گا تو وہ اسے ساتھ نہ لے جائیں گے ۔ لیکن اگر ان کے اصحاب میں سے کوئی شخص مکہ میں رہنا چاہے گا تو اسے وہ نہ روکیں گے ۔ جب ( آئندہ سال ) آپ مکہ تشریف لے گئے اور ( مکہ میں قیام کی ) مدت پوری ہوگئی تو قریش علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ اپنے صاحب سے کہئے کہ مدت پوری ہوگئی ہے اور اب وہ ہمارے یہاں سے چلے جائیں ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے روانہ ہونے لگے ۔ اس وقت حمزہ رضی اللہ عنہ کی ایک بچی چچا چچا کرتی آئیں ۔ علی رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے ساتھ لے لیا ، پھر فاطمہ علیہ ا السلام کے پاس ہاتھ پکڑ کر لائے اور فرمایا ، اپنی چچا زاد بہن کو بھی ساتھ لے لو ، انہوں نے اس کو اپنے ساتھ سوار کرلیا ، پھر علی ، زید اور جعفر رضی اللہ عنہم کا جھگڑا ہوا ۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کا میں زیادہ مستحق ہوں ، یہ میرے چچا کی بچی ہے ۔ جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ میرے بھی چچا کی بچی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں بھی ہیں ۔ زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے بھائی کی بچی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا کہ خالہ ماں کی جگہ ہوتی ہے ، پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ۔ جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم صورت اور عادات و اخلاق سب میں مجھ سے مشابہ ہو ۔ زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے مولا بھی ۔
تشریح :
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رضائی بھائی تھے۔ اس لیے ان کی صاحبزادی نے آپ کو چچا چچا کہہ کر پکارا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اس بچی کو اپنی بھتیجی اس لیے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا بھائی بنادیا تھا۔ زید رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ مولانا سے خطاب فرمایا، مولیٰ اس غلام کو کہتے ہیں جس کو مالک آزاد کردے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو آزادکرکے اپنا بیٹا بنالیا تھا۔ جب آپ نے یہ لڑکی ازروئے انصاف حضرت جعفررضی اللہ عنہ کو دلوائی تو اوروں کا دل خوش کرنے کے لیے یہ حدیث فرمائی۔ اس حدیث سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت نکلی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں تیرا ہوں، تو میرا ہے۔ مطلب یہ کہ ہم تم دونوں ایک ہی دادا کی اولاد ہیں اور خون ملا ہوا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مٹانے اور آپ کا نام نامی لکھنے سے انکار عدول حکمی کے طورپر نہیں کیا، بلکہ قوت ایمانیہ کے جوش سے ان سے یہ نہیں ہوسکا کہ آپ کی رسالت جو سراسر برحق ہے اور صحیح تھی، اس کو اپنے ہاتھ سے مٹائیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ آپ کا حکم بطور وجوب کے نہیں ہے۔
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ ترجمہ میں صرف فلاں بن فلاں لکھنے پر اقتصار کیا اور زیادہ نسب نامہ خاندان وغیرہ نہیں لکھوایا۔ روایت ہذا میں جو آپ کے خود لکھنے کا ذکر ہے یہ بطور معجزہ ہوگا، ورنہ درحقیقت آپ نبی امی تھے اور لکھنے پڑھنے سے آپ کا کوئی تعلق نہ تھا۔ پھر اللہ نے آپ کو علوم الاولین و الآخرین سے مالا مال فرمایا۔ جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امی ہونے کا انکار کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ امی ہونا بھی آپ کا معجزہ ہے۔
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رضائی بھائی تھے۔ اس لیے ان کی صاحبزادی نے آپ کو چچا چچا کہہ کر پکارا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اس بچی کو اپنی بھتیجی اس لیے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا بھائی بنادیا تھا۔ زید رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ مولانا سے خطاب فرمایا، مولیٰ اس غلام کو کہتے ہیں جس کو مالک آزاد کردے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو آزادکرکے اپنا بیٹا بنالیا تھا۔ جب آپ نے یہ لڑکی ازروئے انصاف حضرت جعفررضی اللہ عنہ کو دلوائی تو اوروں کا دل خوش کرنے کے لیے یہ حدیث فرمائی۔ اس حدیث سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت نکلی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں تیرا ہوں، تو میرا ہے۔ مطلب یہ کہ ہم تم دونوں ایک ہی دادا کی اولاد ہیں اور خون ملا ہوا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مٹانے اور آپ کا نام نامی لکھنے سے انکار عدول حکمی کے طورپر نہیں کیا، بلکہ قوت ایمانیہ کے جوش سے ان سے یہ نہیں ہوسکا کہ آپ کی رسالت جو سراسر برحق ہے اور صحیح تھی، اس کو اپنے ہاتھ سے مٹائیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ آپ کا حکم بطور وجوب کے نہیں ہے۔
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ ترجمہ میں صرف فلاں بن فلاں لکھنے پر اقتصار کیا اور زیادہ نسب نامہ خاندان وغیرہ نہیں لکھوایا۔ روایت ہذا میں جو آپ کے خود لکھنے کا ذکر ہے یہ بطور معجزہ ہوگا، ورنہ درحقیقت آپ نبی امی تھے اور لکھنے پڑھنے سے آپ کا کوئی تعلق نہ تھا۔ پھر اللہ نے آپ کو علوم الاولین و الآخرین سے مالا مال فرمایا۔ جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امی ہونے کا انکار کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ امی ہونا بھی آپ کا معجزہ ہے۔