كِتَابُ الصُّلْحِ بَابٌ: كَيْفَ يُكْتَبُ هَذَا: مَا صَالَحَ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ، وَفُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ، وَإِنْ لَمْ يَنْسُبْهُ إِلَى قَبِيلَتِهِ أَوْ نَسَبِهِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ البَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا صَالَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَ الحُدَيْبِيَةِ، كَتَبَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ بَيْنَهُمْ كِتَابًا، فَكَتَبَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ المُشْرِكُونَ: لاَ تَكْتُبْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، لَوْ كُنْتَ رَسُولًا لَمْ نُقَاتِلْكَ، فَقَالَ لِعَلِيٍّ: «امْحُهُ»، فَقَالَ عَلِيٌّ: مَا أَنَا بِالَّذِي أَمْحَاهُ، فَمَحَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، وَصَالَحَهُمْ عَلَى أَنْ يَدْخُلَ هُوَ وَأَصْحَابُهُ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ، وَلاَ يَدْخُلُوهَا إِلَّا بِجُلُبَّانِ السِّلاَحِ، فَسَأَلُوهُ مَا جُلُبَّانُ السِّلاَحِ؟ فَقَالَ: القِرَابُ بِمَا فِيهِ
کتاب: صلح کے مسائل کا بیان
باب : صلح نامہ میں لکھنا کافی ہے یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر فلاں ولد فلاں اور فلاں ولد فلاں نے صلح کی اور خاندان اور نسب نامہ لکھنا ضروری نہیں ہے ۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا ، انہوں نے براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا ، آپ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے حدیب یہ کی صلح ( قریش سے ) کی تو اس کی دستاویز حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لکھی تھی ۔ انہوں نے اس میں لکھا محمد اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے ۔ مشرکین نے اس پر اعتراض کیا کہ لفظ محمد کے ساتھ رسول اللہ نہ لکھو ، اگر آپ رسول اللہ ہوتے تو ہم آپ سے لڑتے ہی کیوں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا رسول اللہ کا لفظ مٹادو ، علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے کہا کہ میں تو اسے نہیں مٹاسکتا ، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے وہ لفظ مٹادیا اور مشرکین کے ساتھ اس شرط پر صلح کی کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ ( آئندہ سال ) تین دن کے لیے مکہ آئیں اور ہتھیار میان میں رکھ کر داخل ہوں ، شاگردوں نے پوچھا کہ جلبان السلاح ( جس کا یہاں ذکر ہے ) کیا چیز ہوتی ہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ میان اور جو چیز اس کے اندر ہوتی ہے ( اس کا نام جلبان ہے ) ۔
تشریح :
صلح نامہ میں صرف محمد بن عبداللہ لکھاگیا۔ اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ کسی موقع پر اگر مخالفین کوئی نامناسب مطالبہ کریں جو ضد کی حد تک پہنچ جائے تو مجبوراً اسے تسلیم کرنا پڑے گا۔ آج جب کہ اہل اسلام اقلیت میں ہیں اور معاندین اسلام کی اکثریت ہے تو مجبوراً مسلمانوں کے سامنے ایسے بہت سے مسائل ہیں جن کو بادل ناخواستہ تسلیم کرنے ہی میں سلامتی ہے۔ ایسے امور کے لیے امید ہے کہ عنداللہ مؤاخذہ نہ ہوگا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مستقبل میں اسلام کی فتح مبین دیکھ رہے تھے۔ اسی لیے حدیبیہ کے موقع پر مصلحتاً آپ نے مشرکین کی کئی ایک نامناسب باتوں کو تسلیم کرلیا اور آئندہ خود مشرکین مکہ ہی کو ان کی غلط شرائط کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ سچ ہے الحق یعلوولا یعلیٰ علیہ
صلح نامہ میں صرف محمد بن عبداللہ لکھاگیا۔ اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ کسی موقع پر اگر مخالفین کوئی نامناسب مطالبہ کریں جو ضد کی حد تک پہنچ جائے تو مجبوراً اسے تسلیم کرنا پڑے گا۔ آج جب کہ اہل اسلام اقلیت میں ہیں اور معاندین اسلام کی اکثریت ہے تو مجبوراً مسلمانوں کے سامنے ایسے بہت سے مسائل ہیں جن کو بادل ناخواستہ تسلیم کرنے ہی میں سلامتی ہے۔ ایسے امور کے لیے امید ہے کہ عنداللہ مؤاخذہ نہ ہوگا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مستقبل میں اسلام کی فتح مبین دیکھ رہے تھے۔ اسی لیے حدیبیہ کے موقع پر مصلحتاً آپ نے مشرکین کی کئی ایک نامناسب باتوں کو تسلیم کرلیا اور آئندہ خود مشرکین مکہ ہی کو ان کی غلط شرائط کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ سچ ہے الحق یعلوولا یعلیٰ علیہ