كِتَابُ الصُّلْحِ بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَى صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ صحيح حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ القَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَدٌّ» رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ المَخْرَمِيُّ، وَعَبْدُ الوَاحِدِ بْنُ أَبِي عَوْنٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ
کتاب: صلح کے مسائل کا بیان
باب : اگر ظلم کی بات پر صلح کریں تو وہ صلح لغو ہے
ہم سے یعقوب نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا ، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جس نے ہمارے دین میں از خود کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے ۔ اس کی روایت عبداللہ بن جعفر مخرمی اور عبدالواحد بن ابی عون نے سعد بن ابراہیم سے کی ہے ۔
تشریح :
عبداللہ بن جعفر کی روایت کو امام مسلم نے اور عبدالواحد کی روایت کو دار قطنی نے وصل کیا۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ جو صلح برخلاف قواعد شرع ہو وہ لغو اور باطل ہے اور جب معاہدہ صلح باطل ٹھہرا تو جو معاوضہ کسی فریق نے لیا وہ واجب الرد ہوگا۔
یہ حدیث شریعت کی اصل الاصول ہے۔ اس سے ان تمام بدعات کا جو لوگوں نے دین میں نکال رکھی ہیں پورا رد ہوجاتا ہے۔ جیسے تیجہ، فاتحہ، چہلم، شب برات کاحلوہ، محرم کا کھچڑا، تعزیہ شدہ مولود، عرس، قبروں پر غلاف و پھول ڈالنا، ان پر میلے کرنا وغیرہ وغیرہ، یہ جملہ امور اس لیے بدعت سیسہ ہیں کہ زمانہ رسالت اور زمانہ صحابہ و تابعین میں ان کا کوئی وجود نہیںملتا، جیسا کہ کتب تاریخ و سیر میں موجود ہے۔ مگر کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی جگہ ان بدعات سیہ کا ثبوت نہیں ملے گا۔ اگر سارے اہل بدعت بھی مل کر زور لگائیں تو ناکام رہیں گے۔ بہر حال بدعت سے پرہیز کرنا اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو معمول بنانا بے حد ضروری ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے
مسلک سنت پہ اے سالک چلا جا بے دھڑک
جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک
عبداللہ بن جعفر کی روایت کو امام مسلم نے اور عبدالواحد کی روایت کو دار قطنی نے وصل کیا۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ جو صلح برخلاف قواعد شرع ہو وہ لغو اور باطل ہے اور جب معاہدہ صلح باطل ٹھہرا تو جو معاوضہ کسی فریق نے لیا وہ واجب الرد ہوگا۔
یہ حدیث شریعت کی اصل الاصول ہے۔ اس سے ان تمام بدعات کا جو لوگوں نے دین میں نکال رکھی ہیں پورا رد ہوجاتا ہے۔ جیسے تیجہ، فاتحہ، چہلم، شب برات کاحلوہ، محرم کا کھچڑا، تعزیہ شدہ مولود، عرس، قبروں پر غلاف و پھول ڈالنا، ان پر میلے کرنا وغیرہ وغیرہ، یہ جملہ امور اس لیے بدعت سیسہ ہیں کہ زمانہ رسالت اور زمانہ صحابہ و تابعین میں ان کا کوئی وجود نہیںملتا، جیسا کہ کتب تاریخ و سیر میں موجود ہے۔ مگر کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی جگہ ان بدعات سیہ کا ثبوت نہیں ملے گا۔ اگر سارے اہل بدعت بھی مل کر زور لگائیں تو ناکام رہیں گے۔ بہر حال بدعت سے پرہیز کرنا اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو معمول بنانا بے حد ضروری ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے
مسلک سنت پہ اے سالک چلا جا بے دھڑک
جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک