‌صحيح البخاري - حدیث 2691

كِتَابُ الصُّلْحِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الإِصْلاَحِ بَيْنَ النَّاسِ إِذَا تَفَاسَدُوا، صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ أَتَيْتَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، «فَانْطَلَقَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَكِبَ حِمَارًا، فَانْطَلَقَ المُسْلِمُونَ يَمْشُونَ مَعَهُ وَهِيَ أَرْضٌ سَبِخَةٌ»، فَلَمَّا أَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِلَيْكَ عَنِّي، وَاللَّهِ لَقَدْ آذَانِي نَتْنُ حِمَارِكَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ مِنْهُمْ: وَاللَّهِ لَحِمَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَطْيَبُ رِيحًا مِنْكَ، فَغَضِبَ لِعَبْدِ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، فَشَتَمَهُ، فَغَضِبَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَصْحَابُهُ، فَكَانَ بَيْنَهُمَا ضَرْبٌ بِالْجَرِيدِ وَالأَيْدِي وَالنِّعَالِ، فَبَلَغَنَا أَنَّهَا أُنْزِلَتْ: {وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ المُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا} [الحجرات: 9]

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2691

کتاب: صلح کے مسائل کا بیان باب : لوگوں میں صلح کرانے کا ثواب ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا ، اگر آپ عبداللہ بن ابی ( منافق ) کے یہاں تشریف لے چلتے تو بہتر تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے یہاں ایک گدھے پر سوار ہوکر تشریف لے گئے ۔ صحابہ رضوان اللہ علیہ م پیدل آپ کے ہمراہ تھے ۔ جدھر سے آپ گزر رہے تھے وہ شور زمین تھی ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے یہاں پہنچے تو وہ کہنے لگا ذرا آپ دور ہی رہئے آپ کے گدھے کی بو نے میرا دماغ پریشان کردیا ہے ۔ اس پر ایک انصاری صحابی بولے کہ اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گدھا تجھ سے زیادہ خوشبودار ہے ۔ عبداللہ ( منافق ) کی طرف سے اس کی قوم کا ایک شخص ان صحابی کی اس بات پر غصہ ہوگیا اور دونوںنے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا ۔ پھر دونوں طرف سے دونوں کے حمایتی مشتعل ہوگئے اور ہاتھا پائی ، چھری اور جوتے تک نوبت پہنچ گئی ۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ آیت اسی موقع پر نازل ہوئی تھی ۔ ” اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو ان میں صلح کرادو “ ۔
تشریح : عبداللہ بن ابی خزرج کا سردار تھا، مدینہ والے اس کو بادشاہ بنانے کو تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور یہ امر ملتوی رہا، لوگوں نے آپ کو یہ رائے دی کہ آپ اس کے پاس تشریف لے جائیں گے تو اس کی دلجوئی ہوگی اوربہت سے لوگ اسلام قبول کریں گے۔ پیغمبر مغرور نہیں ہوتے، آپ بلاتکلف تشریف لے گئے۔ مگر اس مردود نے جو اپنے آپ کو بہت نفیس مزاج سمجھتا تھا، آپ کے گدھے کو بدبودار سمجھا اور یہ گستاخانہ کلام کیا جو اس کے خبث باطنی کی دلیل تھا۔ ایک انصاری صحابی نے اس کو منھ توڑ جواب دیا جسے سن کر اس منافق کے خاندان کے کچھ لوگ طیش میں آگئے اور قریب تھا کہ باہم جنگ بپا ہوجائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دو فریق میں صلح کرادی، آیت میں مسلمانوں میں صلح کرانے کا ذکر ہے۔ یہ ہر دو گروہ مسلمان ہی تھے۔ کتاب الصلح میں اس لیے اس حدیث کو حضرت امام رحمہ اللہ نے درج کیا کہ آپس کی صلح صفائی کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین تاکیدات ہیں اور یہ عمل عنداللہ بہت ہی اجروثواب کا موجب ہے۔ آیت مذکورہ فی الباب میں یہ ہے کہ مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو ان میں صلح کرادو۔ مگر یہاں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ آیت تو مسلمانوں کے بارے میں ہے اور عبداللہ بن ابی کے ساتھی تو اس وقت تک کافر تھے۔ قسطلانی نے کہا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر میں ہے کہ عبداللہ بن ابی کے ساتھی بھی مسلمان ہوچکے تھے، آیت میں لفظ ” مومنین “ خود اس امر پر دلیل ہے۔ اہل اسلام کا باہمی قتل و قتال اتنا برا ہے کہ اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ اللہم الف بین قلوبنا واصلح ذات بیننا بعض متعصب مقلد علماءنے اپنے مسلک کے سوا دوسرے مسلمانوں کے خلاف عوام میں اس قدر تعصب پھیلا رکھا ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کو بالکل اجنبیت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ایسے علماءکو خدا نیک سمجھ عطا کرے۔ آمین۔ خاص طور پر اہل حدیث سے بغض و عناد اہل بدعت کی نشانی ہے جیسا کہ حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی نے تحریر فرمایا ہے۔ عبداللہ بن ابی خزرج کا سردار تھا، مدینہ والے اس کو بادشاہ بنانے کو تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور یہ امر ملتوی رہا، لوگوں نے آپ کو یہ رائے دی کہ آپ اس کے پاس تشریف لے جائیں گے تو اس کی دلجوئی ہوگی اوربہت سے لوگ اسلام قبول کریں گے۔ پیغمبر مغرور نہیں ہوتے، آپ بلاتکلف تشریف لے گئے۔ مگر اس مردود نے جو اپنے آپ کو بہت نفیس مزاج سمجھتا تھا، آپ کے گدھے کو بدبودار سمجھا اور یہ گستاخانہ کلام کیا جو اس کے خبث باطنی کی دلیل تھا۔ ایک انصاری صحابی نے اس کو منھ توڑ جواب دیا جسے سن کر اس منافق کے خاندان کے کچھ لوگ طیش میں آگئے اور قریب تھا کہ باہم جنگ بپا ہوجائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دو فریق میں صلح کرادی، آیت میں مسلمانوں میں صلح کرانے کا ذکر ہے۔ یہ ہر دو گروہ مسلمان ہی تھے۔ کتاب الصلح میں اس لیے اس حدیث کو حضرت امام رحمہ اللہ نے درج کیا کہ آپس کی صلح صفائی کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین تاکیدات ہیں اور یہ عمل عنداللہ بہت ہی اجروثواب کا موجب ہے۔ آیت مذکورہ فی الباب میں یہ ہے کہ مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو ان میں صلح کرادو۔ مگر یہاں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ آیت تو مسلمانوں کے بارے میں ہے اور عبداللہ بن ابی کے ساتھی تو اس وقت تک کافر تھے۔ قسطلانی نے کہا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر میں ہے کہ عبداللہ بن ابی کے ساتھی بھی مسلمان ہوچکے تھے، آیت میں لفظ ” مومنین “ خود اس امر پر دلیل ہے۔ اہل اسلام کا باہمی قتل و قتال اتنا برا ہے کہ اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ اللہم الف بین قلوبنا واصلح ذات بیننا بعض متعصب مقلد علماءنے اپنے مسلک کے سوا دوسرے مسلمانوں کے خلاف عوام میں اس قدر تعصب پھیلا رکھا ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کو بالکل اجنبیت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ایسے علماءکو خدا نیک سمجھ عطا کرے۔ آمین۔ خاص طور پر اہل حدیث سے بغض و عناد اہل بدعت کی نشانی ہے جیسا کہ حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی نے تحریر فرمایا ہے۔