كِتَابُ الصُّلْحِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الإِصْلاَحِ بَيْنَ النَّاسِ إِذَا تَفَاسَدُوا، صحيح حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ أُنَاسًا مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ كَانَ بَيْنَهُمْ شَيْءٌ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ، فَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ، وَلَمْ يَأْتِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:183]، فَجَاءَ بِلاَلٌ، فَأَذَّنَ بِلاَلٌ بِالصَّلاَةِ، وَلَمْ يَأْتِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُبِسَ وَقَدْ حَضَرَتِ الصَّلاَةُ، فَهَلْ لَكَ أَنْ تَؤُمَّ النَّاسَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، إِنْ شِئْتَ، فَأَقَامَ الصَّلاَةَ فَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَمْشِي فِي الصُّفُوفِ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ الأَوَّلِ، فَأَخَذَ النَّاسُ بِالتَّصْفِيحِ حَتَّى أَكْثَرُوا، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لاَ يَكَادُ يَلْتَفِتُ فِي الصَّلاَةِ، فَالْتَفَتَ فَإِذَا هُوَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَاءَهُ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ بِيَدِهِ فَأَمَرَهُ أَنْ يُصَلِّيَ كَمَا هُوَ، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَهُ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ رَجَعَ القَهْقَرَى وَرَاءَهُ حَتَّى دَخَلَ فِي الصَّفِّ، وَتَقَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِذَا نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي صَلاَتِكُمْ أَخَذْتُمْ بِالتَّصْفِيحِ، إِنَّمَا التَّصْفِيحُ لِلنِّسَاءِ، مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلاَتِهِ، فَلْيَقُلْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، فَإِنَّهُ لاَ يَسْمَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا التَفَتَ، يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا مَنَعَكَ حِينَ أَشَرْتُ إِلَيْكَ لَمْ تُصَلِّ بِالنَّاسِ ، فَقَالَ: مَا كَانَ يَنْبَغِي لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کتاب: صلح کے مسائل کا بیان
باب : لوگوں میں صلح کرانے کا ثواب
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا ، ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ( قباء کے ) بنوعمروبن عوف میں آپس میں کچھ تکرار ہوگئی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کئی اصحاب کو ساتھ لے کر ان کے یہاں ان میں صلح کرانے کے لیے گئے اور نماز کا وقت ہوگیا ، لیکن آپ تشریف نہ لاسکے ۔ چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر اذان دی ، ابھی تک چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہیں لائے تھے اس لیے وہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہدایت کے مطابق ) ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہیں رک گئے ہیں اور نماز کا وقت ہوگیا ہے ، کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھادیں گے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اگر تم چاہو ۔ اس کے بعد بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کی تکبیر کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے ( نماز کے درمیان ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آپہنچے ۔ لوگ بار بار ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگے ۔ مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی دوسری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے ( مگر جب بار بار ایسا ہوا تو ) آپ متوجہ ہوئے اور معلوم کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پیچھے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے انہیں حکم دیا کہ جس طرح وہ نماز پڑھارہے ہیں ، اسے جاری رکھیں ۔ لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اٹھاکر اللہ کی حمد بیان کی اور الٹے پاوں پیچھے آگئے اور صف میں مل گئے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور نماز پڑھائی ۔ نماز سے فارغ ہوکر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ہدایت کی کہ لوگو ! جب نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تم ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگتے ہو ۔ ہاتھ پرہاتھ مارنا عورتوں کے لیے ہے ( مردوں کو ) جس کی نماز میں کوئی بات پیش آئے تو اسے سبحان اللہ کہنا چاہئے ، کیوں کہ یہ لفظ جو بھی سنے گا وہ متوجہ ہوجائے گا ۔ اے ابوبکر ! جب میں نے اشارہ بھی کردیا تھا تو پھر آپ لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھاتے رہے ؟ انہوں نے عرض کیا ، ابوقحافہ کے بیٹے کے لیے یہ بات مناسب نہ تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے نماز پڑھائے ۔
تشریح :
یہ حدیث پیچھے بھی گزرچکی ہے۔ یہاں حضرت مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں آپ کے بمقام قباءبنو عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے جانے کا ذکر ہے۔ معلوم ہوا کہ صلح کو اتنی اہمیت ہے کہ اس کے لیے بڑی سے بڑی شخصیت بھی پیش قدمی کرسکتی ہے۔ بھلا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل، بہتر اور بڑا کون ہوگا۔ آپ خود اس پاک مقصد کے لیے قباءتشریف لے گئے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں نادانی سے کچھ لغزش ہوجائے تو وہ بہرحال قابل معافی ہے۔ مگر امام کوچاہئے کہ غلطی کرنے والوں کو آئندہ کے لیے ہدایت کردے۔
یہ حدیث پیچھے بھی گزرچکی ہے۔ یہاں حضرت مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں آپ کے بمقام قباءبنو عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے جانے کا ذکر ہے۔ معلوم ہوا کہ صلح کو اتنی اہمیت ہے کہ اس کے لیے بڑی سے بڑی شخصیت بھی پیش قدمی کرسکتی ہے۔ بھلا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل، بہتر اور بڑا کون ہوگا۔ آپ خود اس پاک مقصد کے لیے قباءتشریف لے گئے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں نادانی سے کچھ لغزش ہوجائے تو وہ بہرحال قابل معافی ہے۔ مگر امام کوچاہئے کہ غلطی کرنے والوں کو آئندہ کے لیے ہدایت کردے۔