كِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابُ القُرْعَةِ فِي المُشْكِلاَتِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الأَوَّلِ، ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلَّا أَنْ يَسْتَهِمُوا عَلَيْهِ لاَسْتَهَمُوا، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي التَّهْجِيرِ لاَسْتَبَقُوا إِلَيْهِ، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي العَتَمَةِ وَالصُّبْحِ لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا»
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
باب : مشکلات کے وقت قرعہ اندازی کرنا
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ابوبکر کے غلام سمی نے بیان کیا ، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان اور صف اول میں کتنا ثواب ہے اور پھر ( انہیں اس کے حاصل کرنے کے لیے ) قرعہ اندازی کرنی پڑتی ، تو وہ قرعہ اندازی بھی کرتے اور اگر انہیں معلوم ہوجائے کہ نماز سویرے پڑھنے میں کتنا ثواب ہے تو لوگ ایک دوسرے سے سبقت کرنے لگیں اور اگر انہیں معلوم ہوجائے کہ عشاء اور صبح کی کتنی فضیلتیں ہیں تو اگر گھٹنوں کے بل آنا پڑتا تو پھر بھی آتے ۔
تشریح :
ان احادیث سے حضرت امام نے قرعہ اندازی کا جواز نکالا اور بتلایا کہ بہت سے معاملات ایسے بھی سامنے آجاتے ہیں کہ ان کے فیصلہ کے لیے بہتر طریقہ قرعہ اندازی ہی ہوتا ہے۔ پس اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ بعض لوگ قرعہ اندازی کو جائز نہیں کہتے، یہ ان کی عقل کا قصور ہے۔
حدیث ہٰذا سے اذان پکارنے اور صف اول میں کھڑے ہونے کی بھی انتہائی فضیلت ثابت ہوئی اور نماز سویرے اول وقت پڑھنے کی بھی جیسا کہ جماعت اہل حدیث کا عمل ہے کہ فجر، ظہر، عصر، مغرب اول وقت ادا کرنا ان کا معمول ہے۔ خاص طور پر عصر و فجر میں تاخیر کرنا عنداللہ محبوب نہیں ہے۔ عصر اول وقت ایک مثل سایہ ہوجانے پر اور فجر غلس میں اول وقت پڑھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طرز عمل تھا۔ جو آج تک حرمین شریفین میں معمول ہے۔ ( وباللہ التوفیق )
ان احادیث سے حضرت امام نے قرعہ اندازی کا جواز نکالا اور بتلایا کہ بہت سے معاملات ایسے بھی سامنے آجاتے ہیں کہ ان کے فیصلہ کے لیے بہتر طریقہ قرعہ اندازی ہی ہوتا ہے۔ پس اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ بعض لوگ قرعہ اندازی کو جائز نہیں کہتے، یہ ان کی عقل کا قصور ہے۔
حدیث ہٰذا سے اذان پکارنے اور صف اول میں کھڑے ہونے کی بھی انتہائی فضیلت ثابت ہوئی اور نماز سویرے اول وقت پڑھنے کی بھی جیسا کہ جماعت اہل حدیث کا عمل ہے کہ فجر، ظہر، عصر، مغرب اول وقت ادا کرنا ان کا معمول ہے۔ خاص طور پر عصر و فجر میں تاخیر کرنا عنداللہ محبوب نہیں ہے۔ عصر اول وقت ایک مثل سایہ ہوجانے پر اور فجر غلس میں اول وقت پڑھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طرز عمل تھا۔ جو آج تک حرمین شریفین میں معمول ہے۔ ( وباللہ التوفیق )