كِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابُ القُرْعَةِ فِي المُشْكِلاَتِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدٍ الأَنْصَارِيُّ، أَنَّ أُمَّ العَلاَءِ - امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِمْ - قَدْ بَايَعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَتْهُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ طَارَ لَهُ سَهْمُهُ فِي [ص:182] السُّكْنَى، حِينَ أَقْرَعَتْ الأَنْصَارُ سُكْنَى المُهَاجِرِينَ، قَالَتْ أُمُّ العَلاَءِ: فَسَكَنَ عِنْدَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ، فَاشْتَكَى، فَمَرَّضْنَاهُ حَتَّى إِذَا تُوُفِّيَ وَجَعَلْنَاهُ فِي ثِيَابِهِ، دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ أَبَا السَّائِبِ، فَشَهَادَتِي عَلَيْكَ لَقَدْ أَكْرَمَكَ اللَّهُ، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَمَا يُدْرِيكِ أَنَّ اللَّهَ أَكْرَمَهُ؟»، فَقُلْتُ: لاَ أَدْرِي بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَّا عُثْمَانُ فَقَدْ جَاءَهُ وَاللَّهِ اليَقِينُ، وَإِنِّي لَأَرْجُو لَهُ الخَيْرَ، وَاللَّهِ مَا أَدْرِي وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ مَا يُفْعَلُ بِهِ»، قَالَتْ: فَوَاللَّهِ لاَ أُزَكِّي أَحَدًا بَعْدَهُ أَبَدًا، وَأَحْزَنَنِي ذَلِكَ، قَالَتْ: فَنِمْتُ، فَأُرِيتُ لِعُثْمَانَ عَيْنًا تَجْرِي، فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: «ذَاكِ عَمَلُهُ»
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
باب : مشکلات کے وقت قرعہ اندازی کرنا
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبردی زہری سے ، ان سے خارجہ بن زید انصاری نے بیان کیا کہ ان کی رشتہ دار ایک عورت ام علاءنامی نے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت بھی کی تھی ، انہیں خبر دی کہ انصار نے مہاجرین کو اپنے یہاں ٹھہرانے کے لیے پانسے ڈالے تو عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا قیام ہمارے حصے میں آیا ۔ ام علاءرضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہمارے گھر ٹھہرے اور کچھ مدت بعد وہ بیمار پڑگئے ۔ ہم نے ان کی تیمار داری کی مگر کچھ دن بعد ان کی وفات ہوگئی ۔ جب ہم انہیں کفن دے چکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔ میں نے کہا ، ابوالسائب ! ( عثمان رضی اللہ عنہ کی کنیت ) تم پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ، میری گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے یہاں تمہاری ضرور عزت اور بڑائی کی ہوگی ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بات تمہیں کیسے معلوم ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت اور بڑائی کی ہوگی ۔ میں نے عرض کیا ، میرے ماں اور باپ آپ پر فدا ہوں ، مجھے یہ بات کسی ذریعہ سے معلوم نہیں ہوئی ہے ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، عثمان کا جہاں تک معاملہ ہے ، تو اللہ گواہ ہے کہ ان کی وفات ہوچکی اور میں ان کے بارے میں اللہ سے خیرہی کی امید رکھتا ہوں ، لیکن اللہ کی قسم ! اللہ کے رسول ہونے کے باوجود مجھے بھی یہ علم نہیں کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا ۔ ام علاءرضی اللہ عنہا کہنے لگیں ، اللہ کی قسم ! اب اس کے بعد میں کسی شخص کی پاکی کبھی بیان نہیں کروں گی ۔ اس سے مجھے رنج بھی ہوا ( کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میں نے ایک ایسی بات کہی جس کا مجھے حقیقی علم نہیں تھا ) انہوں نے کہا ( ایک دن ) میں سورہی تھی ، میں نے خواب میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے ایک بہتا ہوا چشمہ دیکھا ۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی آپ سے خواب بیان کیا ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ان کا عمل ( نیک ) تھا ۔
تشریح :
کسی بھی بزرگ کے لیے قطعی جنتی ہونے کا حکم لگانا یہ منصب صرف اللہ اور رسول ہی کو حاصل ہے اور کسی کو بھی حق نہیں کہ کسی کو مطلق جنتی کہہ سکے۔ روایت میں قسم کے لیے لفظ واللہ بار بار آیا ہے اسی غرض سے امام بخاری اس کو یہاں لائے ہیں۔ دوسری روایت میں یوں ہے۔ میرا حال کیا ہونا ہے اور عثمان کا حال کیا ہونا ہے۔ یہ موافق ہے اس آیت کے جو سورۃ احقاف میں ہے ومآ ادري مایفعل بي ولا بک ( الاحقاف: 9 ) یعنی میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا۔ حدیث میں قرعہ اندازی کا ذکر ہے، باب کے مطابق یہ بھی ایک توجیہ ہے۔
پادریوں کا یہ اعتراض کہ تمہارے پیغمبر کو جب اپنی نجات کا علم نہ تھا تو دوسروں کی نجات وہ کیسے کراسکتے ہیں۔ محض لغو اعتراض ہے۔ اس لیے کہ اگر آپ سچے پیغمبر نہ ہوتے تو ضرور اپنی تسلی کے لیے یوں فرماتے کہ میں ایسا کروں گا ویسا کروں گا، مجھے سب اختیار ہے۔ سچے راست باز ہمیشہ انکساری سامنے رکھتے ہیں۔ اسی بنا پر آپ نے ایسا فرمایا۔
کسی بھی بزرگ کے لیے قطعی جنتی ہونے کا حکم لگانا یہ منصب صرف اللہ اور رسول ہی کو حاصل ہے اور کسی کو بھی حق نہیں کہ کسی کو مطلق جنتی کہہ سکے۔ روایت میں قسم کے لیے لفظ واللہ بار بار آیا ہے اسی غرض سے امام بخاری اس کو یہاں لائے ہیں۔ دوسری روایت میں یوں ہے۔ میرا حال کیا ہونا ہے اور عثمان کا حال کیا ہونا ہے۔ یہ موافق ہے اس آیت کے جو سورۃ احقاف میں ہے ومآ ادري مایفعل بي ولا بک ( الاحقاف: 9 ) یعنی میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا۔ حدیث میں قرعہ اندازی کا ذکر ہے، باب کے مطابق یہ بھی ایک توجیہ ہے۔
پادریوں کا یہ اعتراض کہ تمہارے پیغمبر کو جب اپنی نجات کا علم نہ تھا تو دوسروں کی نجات وہ کیسے کراسکتے ہیں۔ محض لغو اعتراض ہے۔ اس لیے کہ اگر آپ سچے پیغمبر نہ ہوتے تو ضرور اپنی تسلی کے لیے یوں فرماتے کہ میں ایسا کروں گا ویسا کروں گا، مجھے سب اختیار ہے۔ سچے راست باز ہمیشہ انکساری سامنے رکھتے ہیں۔ اسی بنا پر آپ نے ایسا فرمایا۔