‌صحيح البخاري - حدیث 2684

كِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابُ مَنْ أَمَرَ بِإِنْجَازِ الوَعْدِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ شُجَاعٍ عَنْ سَالِمٍ الْأَفْطَسِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ سَأَلَنِي يَهُودِيٌّ مِنْ أَهْلِ الْحِيرَةِ أَيَّ الْأَجَلَيْنِ قَضَى مُوسَى قُلْتُ لَا أَدْرِي حَتَّى أَقْدَمَ عَلَى حَبْرِ الْعَرَبِ فَأَسْأَلَهُ فَقَدِمْتُ فَسَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ قَضَى أَكْثَرَهُمَا وَأَطْيَبَهُمَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَالَ فَعَلَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2684

کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان باب : جس نے وعدہ پورا کرنے کا حکم دیا ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ، کہا ہم کو سعید بن سلیمان نے خبر دی ، ان سے مروان بن شجاع نے بیان کیا ، ان سے سالم افطس نے اور ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ حیرہ کے یہ ودی نے مجھ سے پوچھا ، موسیٰ علیہ السلام نے ( اپنے مہر کے ادا کرنے میں ) کون سی مدت پوری کی تھی ؟ ( یعنی آٹھ سال کی یا دس سال کی ، جن کا قرآن میں ذکر ہے ) میں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں ، ہاں ! عرب کے بڑے عالم کی خدمت میں حاضر ہوکر پوچھ لوں ( تو پھر تمہیں بتادوں گا ) چنانچہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آپ نے بڑی مدت پوری کی ( دس سال کی ) جو دونوں مدتوں میں بہتر تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب کسی سے وعدہ کرتے تو پورا کرتے تھے ۔
تشریح : ان جملہ احادیث سے حضرت اما نے جو وعدہ پوا کرنے کا وجوب ثابت کیا‘ خصوصا جو وعدہ عدالت میں کیا جائے وہ نہ پورا کرے تو اس سے جبرا پورا کرایا جائے گا۔ورنہ عدالت ایک تماشہ بن حائے گی۔ حصرت موسی ٰعلیہ السلام کے سامنے آٹھ اور دس سال کی مدتیؔن رکھی گئی تھیں۔ حصرت شعیب علیہ السلام نے ان سے فرمایا تھا کہ میں چاہتا ہوں اپنی دو بیٹیوں میں سے ایک کی شادی تمہارے ساتھ کر دوں ۔ بشرطیکہ تم آٹھ برس میری نوکری کرو اور اگر دس برس پورا کرو تو یہ تمہارا احسان ہو گا ۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ کہ اللہ کۃ رسول وعدہ خلاف ہرگز نہیں ہو سکتے ۔ یہیں سے ترجمہ باب نکلتاہے ۔ دوسری روایت میں یوں ہے کہ سعید نے کہا ‘پھر وہ یہودی مجھ سے ملا تو میں نے جو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا وہ اسے بتلا دیا۔ وہ کہنے لگا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیشک عالم ہیں ۔ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا لور آپ نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا تھا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ پاک سے جس کے جواب میں اللہ پک نے قرمایا تھا کہ موسی ٰعلیہ السلام نے وہ میعاد پوری کی جو زیادہ لمبی اور زیادہ بہتر تھی۔ ان جملہ احادیث سے حضرت اما نے جو وعدہ پوا کرنے کا وجوب ثابت کیا‘ خصوصا جو وعدہ عدالت میں کیا جائے وہ نہ پورا کرے تو اس سے جبرا پورا کرایا جائے گا۔ورنہ عدالت ایک تماشہ بن حائے گی۔ حصرت موسی ٰعلیہ السلام کے سامنے آٹھ اور دس سال کی مدتیؔن رکھی گئی تھیں۔ حصرت شعیب علیہ السلام نے ان سے فرمایا تھا کہ میں چاہتا ہوں اپنی دو بیٹیوں میں سے ایک کی شادی تمہارے ساتھ کر دوں ۔ بشرطیکہ تم آٹھ برس میری نوکری کرو اور اگر دس برس پورا کرو تو یہ تمہارا احسان ہو گا ۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ کہ اللہ کۃ رسول وعدہ خلاف ہرگز نہیں ہو سکتے ۔ یہیں سے ترجمہ باب نکلتاہے ۔ دوسری روایت میں یوں ہے کہ سعید نے کہا ‘پھر وہ یہودی مجھ سے ملا تو میں نے جو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا وہ اسے بتلا دیا۔ وہ کہنے لگا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیشک عالم ہیں ۔ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا لور آپ نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا تھا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ پاک سے جس کے جواب میں اللہ پک نے قرمایا تھا کہ موسی ٰعلیہ السلام نے وہ میعاد پوری کی جو زیادہ لمبی اور زیادہ بہتر تھی۔