‌صحيح البخاري - حدیث 2681

كِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابُ مَنْ أَمَرَ بِإِنْجَازِ الوَعْدِ صحيح حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سُفْيَانَ، أَنَّ هِرَقْلَ قَالَ لَهُ: سَأَلْتُكَ مَاذَا يَأْمُرُكُمْ؟ فَزَعَمْتَ: «أَنَّهُ أَمَرَكُمْ بِالصَّلاَةِ، وَالصِّدْقِ، وَالعَفَافِ، وَالوَفَاءِ بِالعَهْدِ، وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ»، قَالَ: وَهَذِهِ صِفَةُ نَبِيٍّ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2681

کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان باب : جس نے وعدہ پورا کرنے کا حکم دیا ہم سے ابرہیم بن حمزہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، ان سے صالح بن کیسان نے ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی ، انہوں نے بیان کیا کہ انہیں ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ہرقل نے ان سے کہا تھا کہ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ وہ ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں تو تم نے بتایا کہ وہ تمہیں نماز ، سچائی ، عفت ، عہد کے پورا کرنے اور امانت کے ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔ اور یہ نبی کی صفات ہیں ۔
تشریح : حضرت امام بخای رحمہ اللہ خود مجتہد مطلق ہیں۔ جامع الصحیح میں جگہ جگہ آپ نے اپنے خدا داد اجتہادی ملکہ سے کام لیا ہے۔ آپ کے سامنے یہ نہیں ہوتا کہ ان کو کس مسلک کی موافقت کرنی ہے اورکس کی تردید۔ ان کے سامنے صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ہوتی ہے۔ ان ہی کے تحت وہ مسائل واحکام پیش کرتے ہیں۔ وہ کسی مجتہد و امام کے مسلک کے مخالف ہوں یا موافق حضرت امام کو قطعاً یہ پرواہ نہیں ہوتی۔ پھر موجودہ دیوبندی ناشران بخاری کا کئی جگہ یہ لکھنا کہ یہاں امام بخاری نے فلاں امام کا مسلک اختیار کیا ہے بالکل غلط اور حضرت امام کی شان اجتہاد میں تنقیص ہے۔ اس جگہ بھی صاحب تفہیم البخاری نے ایسا ہی الزام دہرایا ہے۔ وہ صاحب لکھتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وعدہ کرنے کا حکم بھی قضا کے تحت آسکتا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی غالباً اس باب میں امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک اختیار کیا ہے۔ ( تفہیم البخاری، پ: 10....ص: 117 ) سچ ہے المرایقیس علی نفسہ مقلدین کا چونکہ یہی رویہ ہے وہ مجتہد مطلق امام بخاری کو بھی اسی نظر سے دیکھتے ہیں جوبالکل غلط ہے۔ حضرت امام خود مجتہد مطلق ہیں۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔ حضرت امام بخای رحمہ اللہ خود مجتہد مطلق ہیں۔ جامع الصحیح میں جگہ جگہ آپ نے اپنے خدا داد اجتہادی ملکہ سے کام لیا ہے۔ آپ کے سامنے یہ نہیں ہوتا کہ ان کو کس مسلک کی موافقت کرنی ہے اورکس کی تردید۔ ان کے سامنے صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ہوتی ہے۔ ان ہی کے تحت وہ مسائل واحکام پیش کرتے ہیں۔ وہ کسی مجتہد و امام کے مسلک کے مخالف ہوں یا موافق حضرت امام کو قطعاً یہ پرواہ نہیں ہوتی۔ پھر موجودہ دیوبندی ناشران بخاری کا کئی جگہ یہ لکھنا کہ یہاں امام بخاری نے فلاں امام کا مسلک اختیار کیا ہے بالکل غلط اور حضرت امام کی شان اجتہاد میں تنقیص ہے۔ اس جگہ بھی صاحب تفہیم البخاری نے ایسا ہی الزام دہرایا ہے۔ وہ صاحب لکھتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وعدہ کرنے کا حکم بھی قضا کے تحت آسکتا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی غالباً اس باب میں امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک اختیار کیا ہے۔ ( تفہیم البخاری، پ: 10....ص: 117 ) سچ ہے المرایقیس علی نفسہ مقلدین کا چونکہ یہی رویہ ہے وہ مجتہد مطلق امام بخاری کو بھی اسی نظر سے دیکھتے ہیں جوبالکل غلط ہے۔ حضرت امام خود مجتہد مطلق ہیں۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔