‌صحيح البخاري - حدیث 2669

كِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابٌ: اليَمِينُ عَلَى المُدَّعَى عَلَيْهِ فِي الأَمْوَالِ وَالحُدُودِ صحيح حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ يَسْتَحِقُّ بِهَا مَالًا لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ، ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَ ذَلِكَ: {إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ} [آل عمران: 77] إِلَى {عَذَابٌ أَلِيمٌ} [آل عمران: 77]، ثُمَّ إِنَّ الأَشْعَثَ بْنَ قَيْسٍ خَرَجَ إِلَيْنَا، فَقَالَ مَا يُحَدِّثُكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَحَدَّثْنَاهُ بِمَا قَالَ: فَقَالَ صَدَقَ، لَفِيَّ أُنْزِلَتْ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ خُصُومَةٌ فِي شَيْءٍ، فَاخْتَصَمْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «شَاهِدَاكَ أَوْ يَمِينُهُ» فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّهُ إِذًا يَحْلِفُ وَلَا يُبَالِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ يَسْتَحِقُّ بِهَا مَالًا، وَهُوَ فِيهَا فَاجِرٌ لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ»، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَ ذَلِكَ ثُمَّ اقْتَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2669

کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان باب : دیوانی اور فوجداری دونوں مقدموں میں مدعیٰ علیہ سے قسم لینا ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا منصور سے ، ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو شخص ( جھوٹی ) قسم کسی کا مال حاصل کرنے کے لیے کھائے گا تو اللہ تعالیٰ سے وہ اس حال میں ملے گا کہ اللہ پاک اس پر غضبناک ہوگا ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ( اس حدیث کی ) تصدیق کے لیے یہ آیت نازل فرمائی ۔ ” جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں سے تھوڑی پونجی خریدتے ہیں ۔ عذاب الیم “ تک ۔ پھر اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ ہماری طرف تشریف لائے اور پوچھنے لگے کہ ابوعبدالرحمن ( عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ) تم سے کون سی حدیث بیان کررہے تھے ۔ ہم نے ان کی یہی حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے صحیح بیان کی ، یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی ۔ میرا ایک شخص سے جھگڑا تھا ۔ ہم اپنا مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یا تم دو گواہ لاو ، ورنہ اس کی قسم پر فیصلہ ہوگا ۔ میں نے کہا کہ ( گواہ میرے پاس نہیں ہیں لیکن اگر فیصلہ اس کی قسم پر ہوا ) پھر تو یہ ضرور ہی قسم کھالے گا اور کوئی پروانہ کرے گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ جو شخص بھی کسی کا مال لینے کے لیے ( جھوٹی ) قسم کھائے تو اللہ تعالیٰ سے وہ اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہوگا ۔ اس کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت نازل فرمائی تھی ، پھر انہوں نے یہی آیت تلاوت کی ۔
تشریح : بعض حنفیہ نے اس حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ یمین مع الشاہد پر فیصلہ کرنا درست نہیں اور یہ استدلال فاسد ہے کہ یمین مع الشاہدین کی شق میں داخل ہے تو مطلب یہ ہے کہ دو گواہ لا اس طرح سے کہ دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں یا ایک مرد اور ایک قسم ورنہ مدعیٰ علیہ سے قسم لے۔ یہ حنفیہ اتنا غور نہیں کرتے کہ اللہ اور پیغمبر کے کلام کو باہم ملانا بہتر ہے یا ان میں مخالفت ڈالنا، ایک پر عمل کرنا، ایک کو ترک کرنا۔ ( وحیدی ) الحمد للہ کہ حرم نبوی مدینۃ المنورہ میں 9 اپریل 1970 ءکو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مواجہ شریف میں بیٹھ کر یہاں تک متن کو بغور پڑھا گیا۔ بعض حنفیہ نے اس حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ یمین مع الشاہد پر فیصلہ کرنا درست نہیں اور یہ استدلال فاسد ہے کہ یمین مع الشاہدین کی شق میں داخل ہے تو مطلب یہ ہے کہ دو گواہ لا اس طرح سے کہ دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں یا ایک مرد اور ایک قسم ورنہ مدعیٰ علیہ سے قسم لے۔ یہ حنفیہ اتنا غور نہیں کرتے کہ اللہ اور پیغمبر کے کلام کو باہم ملانا بہتر ہے یا ان میں مخالفت ڈالنا، ایک پر عمل کرنا، ایک کو ترک کرنا۔ ( وحیدی ) الحمد للہ کہ حرم نبوی مدینۃ المنورہ میں 9 اپریل 1970 ءکو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مواجہ شریف میں بیٹھ کر یہاں تک متن کو بغور پڑھا گیا۔