كِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابُ شَهَادَةِ النِّسَاءِ صحيح حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدٌ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَلَيْسَ شَهَادَةُ المَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ؟»، قُلْنَ: بَلَى، قَالَ: «فَذَلِكَ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِهَا»
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
باب : عورتوں کی گواہی کا بیان
ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی ، انہوں نے کہا کہ مجھے زید نے خبردی ، انہیں عیاض بن عبداللہ نے اور انہیں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کیا عورت کی گواہی مردکی گواہی کے آدھے کے برابر نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی تو ان کی عقل کا نقصان ہے ۔
تشریح :
جب تواللہ تعالیٰ نے دو عورتوں کو ایک مرد کے برابر قراردیا۔ تمام حکماءکا اس پر اتفاق ہے کہ عورت کی خلقت بہ نسبت مرد کے ضعیف ہے۔ اس کے قویٰ دماغیہ بھی جسمانی قویٰ کے طرح مرد سے کمزور ہیں۔ اب اگر شاذونادر کوئی عورت ایسی نکل آئی کہ جس کی جسمانی یا دماغی طاقت مردوں سے زیادہ ہو تو اس سے اکثری فطری قاعدے میں کوئی خلل نہیں آسکتا۔ یہ صحیح ہے کہ تعلیم سے مرد اور عورت کے قویٰ دماغی میں اس طرح ریاضت اور کسرت سے قوائے جسمانی میں ترقی ہوسکتی ہے مگر کسی حال میں عورت کی صنف کی فضیلت مرد کے صنف پر ثابت نہیں ہوئی۔ اور جن لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ تعلیم اور ریاضت سے عورتیں مردوں پر فضیلت حاصل کرسکتی ہیں۔ یہ ان کی غلطی ہے۔ اس لیے کہ بحث نوع ذکور اور نوع نسواں میں ہے نہ کسی خاص شخص مذکر یا مؤنث میں۔ قسطلانی نے کہا کہ رمضان کے چاند کی روایت میں ایک شخص کی شہادت کافی ہے اور اموال کے دعاوی میں ایک گواہ اور مدعی کی قسم پر فیصلہ ہوسکتا ہے اسی طرح اموال اور حقوق میں ایک مرد اوردو عورتوں کی شہادت پر بھی اور حدود، نکاح اور قصاص میںعورتوںکی شہادت پر جائز نہیں ہے۔ ( وحیدی )
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی محترمہ والدہ کا واقعہ بیان کیا کہ وہ مکہ شریف کی ایک عدالت میں ایک عورت کے ساتھ پیش ہوئیں۔ تو حاکم نے امتحان کے طور پر ان کو جدا جدا کرنا چاہا۔ فوراً انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے ان تضل احداہما فتذکر احدہما الاخري ( البقرۃ: 282 ) ان دو گواہ عورتوں میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے اور یہ جدائی کی صورت میں ناممکن ہے۔ حاکم نے آپ کے استدلال کو تسلیم کیا۔
جب تواللہ تعالیٰ نے دو عورتوں کو ایک مرد کے برابر قراردیا۔ تمام حکماءکا اس پر اتفاق ہے کہ عورت کی خلقت بہ نسبت مرد کے ضعیف ہے۔ اس کے قویٰ دماغیہ بھی جسمانی قویٰ کے طرح مرد سے کمزور ہیں۔ اب اگر شاذونادر کوئی عورت ایسی نکل آئی کہ جس کی جسمانی یا دماغی طاقت مردوں سے زیادہ ہو تو اس سے اکثری فطری قاعدے میں کوئی خلل نہیں آسکتا۔ یہ صحیح ہے کہ تعلیم سے مرد اور عورت کے قویٰ دماغی میں اس طرح ریاضت اور کسرت سے قوائے جسمانی میں ترقی ہوسکتی ہے مگر کسی حال میں عورت کی صنف کی فضیلت مرد کے صنف پر ثابت نہیں ہوئی۔ اور جن لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ تعلیم اور ریاضت سے عورتیں مردوں پر فضیلت حاصل کرسکتی ہیں۔ یہ ان کی غلطی ہے۔ اس لیے کہ بحث نوع ذکور اور نوع نسواں میں ہے نہ کسی خاص شخص مذکر یا مؤنث میں۔ قسطلانی نے کہا کہ رمضان کے چاند کی روایت میں ایک شخص کی شہادت کافی ہے اور اموال کے دعاوی میں ایک گواہ اور مدعی کی قسم پر فیصلہ ہوسکتا ہے اسی طرح اموال اور حقوق میں ایک مرد اوردو عورتوں کی شہادت پر بھی اور حدود، نکاح اور قصاص میںعورتوںکی شہادت پر جائز نہیں ہے۔ ( وحیدی )
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی محترمہ والدہ کا واقعہ بیان کیا کہ وہ مکہ شریف کی ایک عدالت میں ایک عورت کے ساتھ پیش ہوئیں۔ تو حاکم نے امتحان کے طور پر ان کو جدا جدا کرنا چاہا۔ فوراً انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے ان تضل احداہما فتذکر احدہما الاخري ( البقرۃ: 282 ) ان دو گواہ عورتوں میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے اور یہ جدائی کی صورت میں ناممکن ہے۔ حاکم نے آپ کے استدلال کو تسلیم کیا۔