‌صحيح البخاري - حدیث 2655

كِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابُ شَهَادَةِ الأَعْمَى وَأَمْرِهِ وَنِكَاحِهِ وَإِنْكَاحِهِ وَمُبَايَعَتِهِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَقْرَأُ فِي المَسْجِدِ، فَقَالَ: «رَحِمَهُ اللَّهُ لَقَدْ أَذْكَرَنِي كَذَا وَكَذَا آيَةً، أَسْقَطْتُهُنَّ مِنْ سُورَةِ كَذَا وَكَذَا» وَزَادَ عَبَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، تَهَجَّدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي، فَسَمِعَ صَوْتَ عَبَّادٍ يُصَلِّي فِي المَسْجِدِ، فَقَالَ: «يَا عَائِشَةُ أَصَوْتُ عَبَّادٍ هَذَا؟»، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «اللَّهُمَّ ارْحَمْ عَبَّادًا»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2655

کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان باب : اندھے آدمی کی گواہی اور اس کے معاملہ کا بیان ہم سے محمد بن عبید بن میمون نے بیان کیا ، کہا ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبردی ، انہیں ہشام نے ، انہیں ان کے باپ نے ، اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو مسجد میں قرآن پڑھتے سنا تو فرمایا کہ ان پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے مجھے انہوں نے اس وقت فلاں اور فلاں آیتیں یاد دلادیں جنہیں میں فلاں فلاں سورتوں میں سے بھول گیا تھا ۔ عباد بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت میں عائشہ رضی اللہ عنہ سے یہ زیادتی کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں تہجد کی نماز پڑھی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباد رضی اللہ عنہ کی آواز سنی کہ وہ مسجد میں نماز پڑھ رہے ہیں ۔ آپ نے پوچھا عائشہ ! کیا یہ عباد کی آواز ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں ! آپ نے فرمایا ، اے اللہ ! عباد پر رحم فرما ۔
تشریح : اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن یزید یا عباد کی صورت نہیں دیکھی۔ صرف آواز سنی اور اس پر اعتماد کیا، تو معلوم ہوا کہ اندھا آدمی بھی آواز سن کر شہادت دے سکتا ہے۔ اگر اس کی آواز پہچانتا ہو۔ امام زہری یہی بتلارہے ہیں کہ نابینا کی گواہی قبول ہوسکتی ہے جیسے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں۔ بھلا یہ ممکن ہے کہ نابینا ہونے کی وجہ سے کوئی ان کی گواہی قبول نہ کرے۔ اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن یزید یا عباد کی صورت نہیں دیکھی۔ صرف آواز سنی اور اس پر اعتماد کیا، تو معلوم ہوا کہ اندھا آدمی بھی آواز سن کر شہادت دے سکتا ہے۔ اگر اس کی آواز پہچانتا ہو۔ امام زہری یہی بتلارہے ہیں کہ نابینا کی گواہی قبول ہوسکتی ہے جیسے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں۔ بھلا یہ ممکن ہے کہ نابینا ہونے کی وجہ سے کوئی ان کی گواہی قبول نہ کرے۔