‌صحيح البخاري - حدیث 2654

كِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابُ مَا قِيلَ فِي شَهَادَةِ الزُّورِ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ المُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا الجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الكَبَائِرِ؟» ثَلاَثًا، قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الوَالِدَيْنِ - وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَقَالَ - أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ»، قَالَ: فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْنَا: لَيْتَهُ سَكَتَ وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: حَدَّثَنَا الجُرَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2654

کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان باب : جھوٹی گواہی دینا بڑا گناہ ہے ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریری نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کو سب سے بڑے گناہ نہ بتاوں؟ تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا ۔ صحابہ نے عرض کیا ، ہاں یا رسول اللہ رضی اللہ عنہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ کا کسی کوشریک ٹھہرانا ، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، آپ اس وقت تک ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا ، ہاں اور جھوٹی گواہی بھی ۔ انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملے کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ ہم کہنے لگے کاش ! آپ خاموش ہوجاتے ۔ اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا ، ان سے جریری نے بیان کیا ، اور ان سے عبدالرحمن نے بیان کیا ۔
تشریح : آپ کو بار بار یہ فرمانے میں تکلیف ہورہی تھی، صحابہ نے شفقت کی راہ سے یہ چاہا کہ آپ بار بار فرمانے کی تکلیف نہ اٹھائیں۔ خاموش ہورہیں جبکہ آپ کئی بار فرماچکے ہیں۔ علماءنے گناہوں کو صغیرہ اور کبیرہ دو قسموں میں تقسیم کیا ہے، جس کے لیے دلائل بہت ہیں۔ کچھ کا ایسا خیال ہے کہ صغیرہ گناہ کوئی نہیں، گناہ سب ہی کبیرہ ہیں۔ امام غزالی فرماتے ہیں: انکارالفرق بین الکبیرۃ والصغیرۃ لا یلیق بالفقیہ یعنی دین کی سمجھ رکھنے والوں کے لیے مناسب نہیں کہ وہ کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کے فرق کا انکار کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی گواہی کو بار بار اس لیے ذکر فرمایا کہ یہ بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ اور بہت سے مفاسد کا پیش خیمہ، آپ کا مقصد تھا کہ مسلمان ہرگز اس کا ارتکاب نہ کریں۔ آپ کو بار بار یہ فرمانے میں تکلیف ہورہی تھی، صحابہ نے شفقت کی راہ سے یہ چاہا کہ آپ بار بار فرمانے کی تکلیف نہ اٹھائیں۔ خاموش ہورہیں جبکہ آپ کئی بار فرماچکے ہیں۔ علماءنے گناہوں کو صغیرہ اور کبیرہ دو قسموں میں تقسیم کیا ہے، جس کے لیے دلائل بہت ہیں۔ کچھ کا ایسا خیال ہے کہ صغیرہ گناہ کوئی نہیں، گناہ سب ہی کبیرہ ہیں۔ امام غزالی فرماتے ہیں: انکارالفرق بین الکبیرۃ والصغیرۃ لا یلیق بالفقیہ یعنی دین کی سمجھ رکھنے والوں کے لیے مناسب نہیں کہ وہ کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کے فرق کا انکار کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی گواہی کو بار بار اس لیے ذکر فرمایا کہ یہ بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ اور بہت سے مفاسد کا پیش خیمہ، آپ کا مقصد تھا کہ مسلمان ہرگز اس کا ارتکاب نہ کریں۔