‌صحيح البخاري - حدیث 2648

كِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابُ شَهَادَةِ القَاذِفِ وَالسَّارِقِ وَالزَّانِي صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، «أَنَّ امْرَأَةً سَرَقَتْ فِي غَزْوَةِ الفَتْحِ، فَأُتِيَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا، فَقُطِعَتْ يَدُهَا»، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَحَسُنَتْ تَوْبَتُهَا، وَتَزَوَّجَتْ، وَكَانَتْ تَأْتِي بَعْدَ ذَلِكَ، فَأَرْفَعُ حَاجَتَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2648

کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان باب : زنا کی تہمت لگانے والے اور چور اور حرام کار کی گواہی کا بیان ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا اور ان سے یونس نے اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا اور ان سے ابن شہاب نے ، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ ایک عورت نے فتح مکہ پر چوری کرلی تھی ۔ پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا گیا اور آپ کے حکم کے مطابق اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر انہوں نے اچھی طرح توبہ کرلی اور شادی کرلی ۔ اس کے بعد وہ آتی تھیں تو میں ان کی ضرورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا کرتی تھی ۔
تشریح : یہ عورت مخزومی قریش کے اشراف میں سے تھی۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے ایک چادر چرالی تھی جیسے کہ ابن ماجہ کی روایت میں اس کی صراحت مذکور ہے اور ابن سعدکی روایت میں زیور چرانا مذکورہے۔ ممکن ہے کہ ہر دو چیزیں چرائی ہوں۔ باب کا مطلب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے قول فحسنت توبتہا سے نکلتا ہے۔ طحاوی نے کہا چور کی شہادت بالاجماع مقبول ہے جب وہ توبہ کرلے۔ باب کا مطلب یہ تھا کہ قاذف کی توبہ کیوں کر مقبول ہوگی لیکن حدیث میں چور کی توبہ مذکور ہے تو امام بخاری نے قاذف کو چور پر قیاس کیا۔ یہ عورت مخزومی قریش کے اشراف میں سے تھی۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے ایک چادر چرالی تھی جیسے کہ ابن ماجہ کی روایت میں اس کی صراحت مذکور ہے اور ابن سعدکی روایت میں زیور چرانا مذکورہے۔ ممکن ہے کہ ہر دو چیزیں چرائی ہوں۔ باب کا مطلب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے قول فحسنت توبتہا سے نکلتا ہے۔ طحاوی نے کہا چور کی شہادت بالاجماع مقبول ہے جب وہ توبہ کرلے۔ باب کا مطلب یہ تھا کہ قاذف کی توبہ کیوں کر مقبول ہوگی لیکن حدیث میں چور کی توبہ مذکور ہے تو امام بخاری نے قاذف کو چور پر قیاس کیا۔