‌صحيح البخاري - حدیث 2639

كِتَابُ الشَّهَادَاتِ بَابُ شَهَادَةِ المُخْتَبِي صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: جَاءَتْ امْرَأَةُ رِفاعَةَ القُرَظِيِّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ، فَطَلَّقَنِي، فَأَبَتَّ طَلاَقِي، فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ إِنَّمَا مَعَهُ مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ، فَقَالَ: «أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ؟ لاَ، حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ»، وَأَبُو بَكْرٍ جَالِسٌ عِنْدَهُ، وَخَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ العَاصِ بِالْبَابِ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ أَلاَ تَسْمَعُ إِلَى هَذِهِ مَا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2639

کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان باب : جو اپنے تئیں چھپا کر گواہ بنا ہو اس کی گواہی درست ہے ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا زہری سے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں رفاعہ کی نکاح میں تھی ۔ پھر مجھے انہوں نے طلاق دے دی اور قطعی طلاق دے دی ۔ پھر میں نے عبدالرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے شادی کرلی ۔ لیکن ان کے پاس تو ( شرمگاہ ) اس کپڑے کی گانٹھ کی طرح ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کیا تو رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہے لیکن تو اس وقت تک ان سے اب شادی نہیں کرسکتی جب تک تو عبدالرحمن بن زبیر کا مزا نہ چکھ لے اور وہ تمہارا مزا نہ چکھ لیں ۔ اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں موجود تھے اور خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ دروازے پر اپنے لیے ( اندر آنے کی ) اجازت کا انتظار کررہے تھے ۔ انہوں نے کہا ، ابوبکر ! کیا اس عورت کو نہیں دیکھتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کس طرح کی باتیں زور زور سے کہہ رہی ہے ۔
تشریح : امام بخاری نے یہیں سے یہ نکالا کہ چھپ کر گواہ بننا درست ہے۔ کیوں کہ خالد دروازے کے باہر تھے۔ عورت کے سامنے نہ تھے۔ باوجود اس کے خالد نے ایک قول کی نسبت اس عورت کی طرف کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد پر اعتراض نہیں کیا۔ عبدالرحمن بن زبیر صاحب اولاد تھے مگر اس وقت شاید وہ مریض ہوں.... اسی وجہ سے اس عورت نے اس کو کپڑے کی گانٹھ سے تعبیر کیا جس میں کچھ بھی حرکت نہیں ہوتی، یعنی وہ جماع نہیں کرسکتے۔ مگر حضرت ابن زبیر نے عورت کے اس بیان کی تردید کی تھی۔ اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ جب تک مطلقہ عورت ازخود کسی دوسرے مرد کے نکاح میں جاکر اس سے جماع نہ کرائے اور وہ خود اس کو طلاق نہ دے دے وہ پہلے خاوند کے نکاح میں دوبارہ نہیں جاسکتی۔ فرضی حلالہ کرانے والوں پر لعنت آئی ہے۔ جیسا کہ فقہائے حنفیہ کے ہاں رواج ہے کہ وہ تین طلاق والی عورت کو فرضی حلالہ کرانے کا فتویٰ دیا کرتے ہیں، جو باعث لعنت ہے۔ امام بخاری نے یہیں سے یہ نکالا کہ چھپ کر گواہ بننا درست ہے۔ کیوں کہ خالد دروازے کے باہر تھے۔ عورت کے سامنے نہ تھے۔ باوجود اس کے خالد نے ایک قول کی نسبت اس عورت کی طرف کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد پر اعتراض نہیں کیا۔ عبدالرحمن بن زبیر صاحب اولاد تھے مگر اس وقت شاید وہ مریض ہوں.... اسی وجہ سے اس عورت نے اس کو کپڑے کی گانٹھ سے تعبیر کیا جس میں کچھ بھی حرکت نہیں ہوتی، یعنی وہ جماع نہیں کرسکتے۔ مگر حضرت ابن زبیر نے عورت کے اس بیان کی تردید کی تھی۔ اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ جب تک مطلقہ عورت ازخود کسی دوسرے مرد کے نکاح میں جاکر اس سے جماع نہ کرائے اور وہ خود اس کو طلاق نہ دے دے وہ پہلے خاوند کے نکاح میں دوبارہ نہیں جاسکتی۔ فرضی حلالہ کرانے والوں پر لعنت آئی ہے۔ جیسا کہ فقہائے حنفیہ کے ہاں رواج ہے کہ وہ تین طلاق والی عورت کو فرضی حلالہ کرانے کا فتویٰ دیا کرتے ہیں، جو باعث لعنت ہے۔