كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا بَابُ مَنِ اسْتَعَارَ مِنَ النَّاسِ الفَرَسَ وَالدَّابَّةَ وَغَيْرَهَا صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا، يَقُولُ: كَانَ فَزَعٌ بِالْمَدِينَةِ، فَاسْتَعَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا مِنْ أَبِي طَلْحَةَ يُقَالُ لَهُ المَنْدُوبُ، فَرَكِبَ، فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ: «مَا رَأَيْنَا مِنْ شَيْءٍ، وَإِنْ وَجَدْنَاهُ لَبَحْرًا»
کتاب: ہبہ کے مسائل، فضیلت اور ترغیب کا بیان
باب : جس نے کسی سے گھوڑا عاریتاً لیا
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا قتادہ سے کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا۔ آپ نے بیان کیا کہ مدینے پر ( دشمن کے حملے کا ) خوف تھا۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے ایک گھوڑا جس کا نام مندوب تھا مستعار لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوئے ( صحابہ بھی ساتھ تھے ) پھر جب واپس ہوئے تو فرمایا، ہمیں تو کوئی خطرہ کی چیز نظر نہ آئی، البتہ یہ گھوڑا سمندر کی طرح ( تیز دوڑتا ) پایا۔
تشریح :
دریا کی طرح تیز اور بے تکان جاتا ہے۔ دوسری روایت میں ہے۔ آپ ننگی پیٹھ پر سوار ہوئے۔ آپ کے گلے میں تلوار پڑی تھی۔ آپ اکیلے اسی طرف تشریف لے گئے جدھر سے مدینہ والوں نے آواز سنی تھی۔ سبحان اللہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت اس واقعہ سے معلوم ہوتی ہے کہ اکیلے تنہا دشمن کی خبر لینے کو تشریف لے گئے۔ سخاوت ایسی کہ کسی مانگنے والے کا سوال رد نہ کرتے۔ شرم اور حیا اور مروت ایسی کہ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ۔ عفت ایسی کہ کبھی بدکاری کے پاس تک نہ پھٹکے، حسن اور جمال ایسا کہ سارے عرب میں کوئی آپ کا نظیر نہ تھا۔ نفاست اور نظافت ایسی کہ جدھر سے نکل جاتے، درودیوار معطر ہوجاتے۔ حسن خلق ایسا کہ دس برس تک حضرت انس رضی اللہ عنہ خدمت میں رہے کبھی ان کو جھڑکا تک نہیں۔ عدل اور انصاف ایسا کہ اپنے سگے چچا کی بھی کوئی رعایت نہ کی۔ فرمایا اگر فاطمہ رضی اللہ عنہ بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کٹواڈالوں، عبادت اور ریاضت ایسی کہ نماز پڑھتے پڑھتے پاؤںمیں ورم آگیا۔ بے طمعی ایسی کہ لاکھ روپے آئے، سب مسجد نبوی میں ڈلوادئیے اور اسی وقت بٹوادئیے۔ صبر وقناعت ایسی کہ دو دو مہینے تک چولہا گرم نہ ہوتا۔ جو کی سوکھی روٹی اور کھجور پر اکتفاءکرتے۔ کبھی دو دو تین تین فاقے ہوتے۔ ننگے بوریے پر لیٹتے۔ بدن پر نشان پڑجاتا مگر اللہ کے شکر گزار اور خوش و خرم رہتے۔ حرف شکایت زبان پر نہ لاتے۔ کیا ان سب امور کے بعد کوئی احمق سے احمق بھی آپ کی نبوت اور پیغمبری میں شک کرسکتا ہے؟ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و اصحابہ وسلم۔
دریا کی طرح تیز اور بے تکان جاتا ہے۔ دوسری روایت میں ہے۔ آپ ننگی پیٹھ پر سوار ہوئے۔ آپ کے گلے میں تلوار پڑی تھی۔ آپ اکیلے اسی طرف تشریف لے گئے جدھر سے مدینہ والوں نے آواز سنی تھی۔ سبحان اللہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت اس واقعہ سے معلوم ہوتی ہے کہ اکیلے تنہا دشمن کی خبر لینے کو تشریف لے گئے۔ سخاوت ایسی کہ کسی مانگنے والے کا سوال رد نہ کرتے۔ شرم اور حیا اور مروت ایسی کہ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ۔ عفت ایسی کہ کبھی بدکاری کے پاس تک نہ پھٹکے، حسن اور جمال ایسا کہ سارے عرب میں کوئی آپ کا نظیر نہ تھا۔ نفاست اور نظافت ایسی کہ جدھر سے نکل جاتے، درودیوار معطر ہوجاتے۔ حسن خلق ایسا کہ دس برس تک حضرت انس رضی اللہ عنہ خدمت میں رہے کبھی ان کو جھڑکا تک نہیں۔ عدل اور انصاف ایسا کہ اپنے سگے چچا کی بھی کوئی رعایت نہ کی۔ فرمایا اگر فاطمہ رضی اللہ عنہ بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کٹواڈالوں، عبادت اور ریاضت ایسی کہ نماز پڑھتے پڑھتے پاؤںمیں ورم آگیا۔ بے طمعی ایسی کہ لاکھ روپے آئے، سب مسجد نبوی میں ڈلوادئیے اور اسی وقت بٹوادئیے۔ صبر وقناعت ایسی کہ دو دو مہینے تک چولہا گرم نہ ہوتا۔ جو کی سوکھی روٹی اور کھجور پر اکتفاءکرتے۔ کبھی دو دو تین تین فاقے ہوتے۔ ننگے بوریے پر لیٹتے۔ بدن پر نشان پڑجاتا مگر اللہ کے شکر گزار اور خوش و خرم رہتے۔ حرف شکایت زبان پر نہ لاتے۔ کیا ان سب امور کے بعد کوئی احمق سے احمق بھی آپ کی نبوت اور پیغمبری میں شک کرسکتا ہے؟ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و اصحابہ وسلم۔