كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا بَابُ الهَدِيَّةِ لِلْمُشْرِكِينَ صحيح حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَفْتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: وَهِيَ رَاغِبَةٌ، أَفَأَصِلُ أُمِّي؟ قَالَ: «نَعَمْ صِلِي أُمَّكِ»
کتاب: ہبہ کے مسائل، فضیلت اور ترغیب کا بیان
باب : مشرکوں کو ہدیہ دینا
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ہشام سے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں میری والدہ ( قتیلہ بنت عبدالعزیٰ ) جو مشرکہ تھیں، میرے یہاں آئیں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، میں نے یہ بھی کہا کہ وہ ( مجھ سے ملاقات کی ) بہت خواہش مند ہیں، تو کیا میں اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کر۔
تشریح :
اس کا بیٹا حارث بن مدرکہ بھی ساتھ آیا تھا۔ مگر اس کا نام صحابہ میں نہیں ہے۔ شاید وہ کفر ہی پر مرا۔ یہ قتیلہ بنت عبدالعزیٰ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھی۔ حضرت اسماءرضی اللہ عنہ اسی کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جاہلیت کے زمانے میں طلاق دے دی تھی اور وہ اب بھی غیرمسلمہ تھی جو مدینہ میں اپنی بیٹی اسماءرضی اللہ عنہ کو دیکھنے آئی اور میوے اور گھی وغیرہ کے تحفے ساتھ لائی۔ حضرت اسماءرضی اللہ عنہا نے ان کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا۔ جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی اور احسن برتاؤ کا حکم دیا تھا۔ اس سے اسلام کی اس روش پر روشنی پڑتی ہے جو وہ غیرمسلم مردوں عورتوں کے ساتھ برتاؤ پیش کرتا ہے۔
اس کا بیٹا حارث بن مدرکہ بھی ساتھ آیا تھا۔ مگر اس کا نام صحابہ میں نہیں ہے۔ شاید وہ کفر ہی پر مرا۔ یہ قتیلہ بنت عبدالعزیٰ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھی۔ حضرت اسماءرضی اللہ عنہ اسی کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جاہلیت کے زمانے میں طلاق دے دی تھی اور وہ اب بھی غیرمسلمہ تھی جو مدینہ میں اپنی بیٹی اسماءرضی اللہ عنہ کو دیکھنے آئی اور میوے اور گھی وغیرہ کے تحفے ساتھ لائی۔ حضرت اسماءرضی اللہ عنہا نے ان کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا۔ جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی اور احسن برتاؤ کا حکم دیا تھا۔ اس سے اسلام کی اس روش پر روشنی پڑتی ہے جو وہ غیرمسلم مردوں عورتوں کے ساتھ برتاؤ پیش کرتا ہے۔