كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا بَابُ هَدِيَّةِ مَا يُكْرَهُ لُبْسُهَا صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ أَبُو جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ، فَلَمْ يَدْخُلْ عَلَيْهَا، وَجَاءَ عَلِيٌّ، فَذَكَرَتْ لَهُ ذَلِكَ، فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنِّي رَأَيْتُ عَلَى بَابِهَا سِتْرًا مَوْشِيًّا»، فَقَالَ: «مَا لِي وَلِلدُّنْيَا» فَأَتَاهَا عَلِيٌّ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهَا، فَقَالَتْ: لِيَأْمُرْنِي فِيهِ بِمَا شَاءَ، قَالَ: «تُرْسِلُ بِهِ إِلَى فُلاَنٍ، أَهْلِ بَيْتٍ بِهِمْ حَاجَةٌ»
کتاب: ہبہ کے مسائل، فضیلت اور ترغیب کا بیان
باب : ایسے کپڑے کا تحفہ جس کا پہننا مکروہ ہو
ہم سے ابوجعفر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن فضیل نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے نافع سے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے، لیکن اندر نہیں گئے۔ اسکے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر آئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا ( کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف نہیں لائے ) علی رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکرجحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اس کے دروازے پر دھاری دار پردہ لٹکا دیکھا تھا ( اس لیے واپس چلا آیا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے دنیا ( کی آرائش و زیبائش ) سے کیا سروکار۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آکر ان سے آپ کی گفتگو کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ مجھے جس طرح کا چاہیں اس سلسلے میں حکم فرمائیں۔ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات پہنچی تو ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں گھر میں اسے بھجوادیں۔ انہیں اس کی ضرورت ہے۔
تشریح :
دروازہ پرکپڑا بطور پردہ لٹکانا ناجائز نہ تھا، مگر محض زیب و زینت کے لیے کپڑا لٹکانا یہ خانوادہ نبوت کے لیے اس لیے مناسب نہیں تھا کہ الفقر فخری ان کا طرہ امتیاز تھا۔ آپ نے جو اپنے لیے پسند فرمایا اس کے لیے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو ہدایت فرمائی اور ایک موقع پر آیت کریمہ وللاخرۃ خیرلک من الاولیٰ ( الضحیٰ: 4 ) کی روشنی میں ارشاد ہوا کہ میرے لیے میری آل کے لیے دنیاوی تعیش اور ترفع لائق نہیں، اللہ نے ہمارے لیے، سب کچھ آخرت میں تیار فرمایا ہے۔
حضرت فاطمۃ الزہرارضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ہی پیاری بیٹی ہیں، ان کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ہیں۔ ایک روایت کے مطابق یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ دنیا و آخرت میں تمام عورتوں کی سردار ہیں۔ رمضان2ھ میں ان کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا اور ذی الحجہ میں رخصتی عمل میں آئی۔ ان کے بطن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تین صاحبزادے حضرت حسن و حضرت حسین حضرت محسن رضی اللہ عنہم اور زینب، ام کلثوم اور رقیہ تین صاحبزادیاں پیدا ہوئیں۔ وفات نبوی کے چھ ماہ بعد مدینہ طیبہ ہی میں بعمر28سال انتقال فرمایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو غسل دیا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ شب میں دفن کی گئیں۔ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اور ان کے علاوہ صحابہ کی ایک جماعت نے ان سے روایت کی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ میں نے کسی کو ان سے زیادہ سچا نہیں پایا۔ انہوں نے فرمایا جبکہ ان دونوں کے درمیان کسی بات میں کبیدگی تھی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ہی سے پوچھ لیجئے کیوں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتی ہیں۔ مزید مناقب اپنے مقام میں آئیں گے۔ ( رضی اللہ عنہا )
4اپریل 70 ءمیں اس حدیث تک کعبہ شریف مکۃ المکرمہ میں بغور و فکر متن بخاری شریف پارہ دس کو پڑھاگیا۔ اللہ پاک قلم کو لغزش سے بچائے اور کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح طور پر سمجھنے اور اس کا صحیح ترجمہ لکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور تشریحات میں بھی اللہ پاک فہم و فراست نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین۔
دروازہ پرکپڑا بطور پردہ لٹکانا ناجائز نہ تھا، مگر محض زیب و زینت کے لیے کپڑا لٹکانا یہ خانوادہ نبوت کے لیے اس لیے مناسب نہیں تھا کہ الفقر فخری ان کا طرہ امتیاز تھا۔ آپ نے جو اپنے لیے پسند فرمایا اس کے لیے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو ہدایت فرمائی اور ایک موقع پر آیت کریمہ وللاخرۃ خیرلک من الاولیٰ ( الضحیٰ: 4 ) کی روشنی میں ارشاد ہوا کہ میرے لیے میری آل کے لیے دنیاوی تعیش اور ترفع لائق نہیں، اللہ نے ہمارے لیے، سب کچھ آخرت میں تیار فرمایا ہے۔
حضرت فاطمۃ الزہرارضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ہی پیاری بیٹی ہیں، ان کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ہیں۔ ایک روایت کے مطابق یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ دنیا و آخرت میں تمام عورتوں کی سردار ہیں۔ رمضان2ھ میں ان کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا اور ذی الحجہ میں رخصتی عمل میں آئی۔ ان کے بطن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تین صاحبزادے حضرت حسن و حضرت حسین حضرت محسن رضی اللہ عنہم اور زینب، ام کلثوم اور رقیہ تین صاحبزادیاں پیدا ہوئیں۔ وفات نبوی کے چھ ماہ بعد مدینہ طیبہ ہی میں بعمر28سال انتقال فرمایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو غسل دیا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ شب میں دفن کی گئیں۔ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اور ان کے علاوہ صحابہ کی ایک جماعت نے ان سے روایت کی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ میں نے کسی کو ان سے زیادہ سچا نہیں پایا۔ انہوں نے فرمایا جبکہ ان دونوں کے درمیان کسی بات میں کبیدگی تھی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ہی سے پوچھ لیجئے کیوں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتی ہیں۔ مزید مناقب اپنے مقام میں آئیں گے۔ ( رضی اللہ عنہا )
4اپریل 70 ءمیں اس حدیث تک کعبہ شریف مکۃ المکرمہ میں بغور و فکر متن بخاری شریف پارہ دس کو پڑھاگیا۔ اللہ پاک قلم کو لغزش سے بچائے اور کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح طور پر سمجھنے اور اس کا صحیح ترجمہ لکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور تشریحات میں بھی اللہ پاک فہم و فراست نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین۔