كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا بَابُ هَدِيَّةِ مَا يُكْرَهُ لُبْسُهَا صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: رَأَى عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ حُلَّةً سِيَرَاءَ عِنْدَ بَابِ المَسْجِدِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوِ اشْتَرَيْتَهَا، فَلَبِسْتَهَا يَوْمَ الجُمُعَةِ وَلِلْوَفْدِ، قَالَ: «إِنَّمَا يَلْبَسُهَا مَنْ لاَ خَلاَقَ لَهُ فِي الآخِرَةِ»، ثُمَّ جَاءَتْ حُلَلٌ، فَأَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ مِنْهَا حُلَّةً، وَقَالَ: أَكَسَوْتَنِيهَا، وَقُلْتَ فِي حُلَّةِ عُطَارِدٍ مَا قُلْتَ؟ فَقَالَ: «إِنِّي لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا»، فَكَسَاهَا عُمَرُ أَخًا لَهُ بِمَكَّةَ مُشْرِكًا
کتاب: ہبہ کے مسائل، فضیلت اور ترغیب کا بیان
باب : ایسے کپڑے کا تحفہ جس کا پہننا مکروہ ہو
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے نافع سے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ مسجد کے دروازے پر ایک ریشمی حلہ ( بک رہا ) ہے۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، کہ کیا اچھا ہوتا اگر آپ اسے خرید لیتے اور جمعہ کے دن اور وفود کی ملاقات کے موقع پر اسے زیب تن فرمالیاکرتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب یہ دیا کہ اسے وہی لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ کچھ دنوں بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں بہت سے ( ریشمی ) حلے آئے اور آپ نے ایک حلہ ان میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی عنایت فرمایا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر عرض کیا کہ آپ یہ مجھے پہننے کے لیے عنایت فرمارہے ہیں۔ حالانکہ آپ خود عطارد کے حلوں کے بارے میں جو کچھ فرمانا تھا فرماچکے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اسے تمہیں پہننے کے لیے نہیں دیا ہے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو دے دیا، جو مکے میں رہتا تھا۔
تشریح :
عطارد بن حاجب بن زرارہ بن عدس بنی تمیم کا بھیجا ہوا ایک شخص تھا۔ پہلا جوڑا جس کے خریدنے کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رائے دی تھی، وہی لایا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی حلے کا ہدیہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کو پیش فرمایا جس کا خود استعمال کرنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے جائز نہ تھا۔ تفصیل معلوم کرنے کے بعد حضرت عمر نے وہ حلہ اپنے ایک غیرمسلم سگے بھائی کو دے دیا۔ اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا اور یہ بھی کہ اپنے عزیز اگر غیرمسلم یا بد دین ہیں تب بھی ان کے ساتھ ہر ممکن حسن سلوک کرنا چاہئے کیوں کہ یہ انسانیت کا تقاضا ہے۔ اور مقام انسانیت بہر حال ارفع و اعلیٰ ہے۔
عطارد بن حاجب بن زرارہ بن عدس بنی تمیم کا بھیجا ہوا ایک شخص تھا۔ پہلا جوڑا جس کے خریدنے کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رائے دی تھی، وہی لایا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی حلے کا ہدیہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کو پیش فرمایا جس کا خود استعمال کرنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے جائز نہ تھا۔ تفصیل معلوم کرنے کے بعد حضرت عمر نے وہ حلہ اپنے ایک غیرمسلم سگے بھائی کو دے دیا۔ اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا اور یہ بھی کہ اپنے عزیز اگر غیرمسلم یا بد دین ہیں تب بھی ان کے ساتھ ہر ممکن حسن سلوک کرنا چاہئے کیوں کہ یہ انسانیت کا تقاضا ہے۔ اور مقام انسانیت بہر حال ارفع و اعلیٰ ہے۔