كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا بَابُ إِذَا وَهَبَ جَمَاعَةٌ لِقَوْمٍ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الحَكَمِ، وَالمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَخْبَرَاهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ، فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ: مَعِي مَنْ تَرَوْنَ وَأَحَبُّ الحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ، فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ: إِمَّا السَّبْيَ وَإِمَّا المَالَ، وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَهُمْ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنَ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا، فَقَامَ فِي المُسْلِمِينَ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ هَؤُلاَءِ جَاءُونَا تَائِبِينَ وَإِنِّي رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ، فَلْيَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ»، فَقَالَ النَّاسُ: طَيَّبْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ: «إِنَّا لاَ نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ فِيهِ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ»، فَرَجَعَ النَّاسُ، فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ طَيَّبُوا، وَأَذِنُوا وَهَذَا الَّذِي بَلَغَنَا مِنْ سَبْيِ هَوَازِنَ، هَذَا آخِرُ قَوْلِ الزُّهْرِيِّ «يَعْنِي فَهَذَا الَّذِي بَلَغَنَا»
کتاب: ہبہ کے مسائل، فضیلت اور ترغیب کا بیان
باب : اگر کئی شخص کئی شخصوں کو ہبہ کریں
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، ان سے لیث نے، کہا ہم سے عقیل نے ابن شہاب سے، وہ عروہ سے کہ مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر حاضر ہوا اور آپ سے درخواست کی کہ ان کے اموال اور قیدی انہیں واپس کر دئیے جائیں تو آپ نے ان سے فرمایا میرے ساتھ جتنی بڑی جماعت ہے اسے بھی تم دیکھ رہے ہو اور سب سے زیادہ سچی بات ہی مجھے سب سے زیادہ پسند ہے اس لیے تم لوگ ان دو چیزوں میں سے ایک ہی لے سکتے ہو، یا اپنے قیدی لے لو یا اپنا مال۔ میں نے تمہارا پہلے ہی انتظار کیا تھا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپسی پر تقریباً دس دن تک ( مقام جعرانہ میں ) ان لوگوں کا انتظار فرماتے رہے۔ پھر جب ان لوگوں کے سامنے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی صرف ایک ہی چیز واپس فرماسکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم اپنے قیدیوں ہی کو ( واپس لینا ) پسند کرتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر مسلمانوں کو خطاب کیا، آپ نے اللہ کی اس کی شان کے مطابق تعریف بیان کی اور فرمایا، اما بعد ! یہ تمہارے بھائی ہمارے پاس اب توبہ کرکے آئے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ انہیں ان کے قیدی واپس کردوں۔ اس لیے جو صاحب اپنی خوشی سے واپس کرنا چاہیں وہ ایسا کرلیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہوں کہ اپنے حصے کو نہ چھوڑیں بلکہ ہم انہیں اس کے بدلے میں سب سے پہلی غنیمت کے مال میں سے معاوضہ دیں، تو وہ بھی ( اپنے موجودہ قیدیوں کو ) واپس کردیں۔ سب صحابہ نے اس پر کہا، یا رسول اللہ ! ہم اپنی خوشی سے انہیں واپس کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا لیکن واضح طور پر اس وقت یہ معلوم نہ ہوسکا کہ کون اپنی خوشی سے دینے کے لیے تیار ہے اور کون نہیں۔ اس لیے سب لوگ ( اپنے خیموں میں ) واپس جائیں اور تمہارے چودھری لوگ تمہارا معاملہ لاکر پیش کریں۔ چنانچہ سب لوگ واپس ہوگئے اور نمائندوں نے ان سے گفتگوکی اور واپس ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ تمام لوگوں نے خوشی سے اجازت دے دی ہے۔ قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق ہمیں یہ ی بات معلوم ہوئی ہے۔ یہ زہری رضی اللہ عنہ کا آخری قول تھا۔ یعنی یہ کہ ” قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق ہمیں یہ ی بات معلوم ہوئی ہے “۔
تشریح :
باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ صحابہ نے جو متعدد لوگ تھے، ہوازن کے لوگوں کو جو متعدد تھے، قیدیوں کا ہبہ کیا۔
باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ صحابہ نے جو متعدد لوگ تھے، ہوازن کے لوگوں کو جو متعدد تھے، قیدیوں کا ہبہ کیا۔