كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا بَابُ مَنْ لَمْ يَقْبَلِ الهَدِيَّةَ لِعِلَّةٍ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ الصَّعْبَ بْنَ جَثَّامَةَ اللَّيْثِيَّ - وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يُخْبِرُ أَنَّهُ أَهْدَى لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِمَارَ وَحْشٍ وَهُوَ بِالأَبْوَاءِ - أَوْ بِوَدَّانَ - وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَرَدَّهُ، قَالَ صَعْبٌ: فَلَمَّا عَرَفَ فِي وَجْهِي رَدَّهُ هَدِيَّتِي قَالَ: «لَيْسَ بِنَا رَدٌّ عَلَيْكَ وَلَكِنَّا حُرُمٌ»
کتاب: ہبہ کے مسائل، فضیلت اور ترغیب کا بیان
باب : جس نے کسی عذر سے ہدیہ قبول نہیں کیا
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ انہوں نے صعب بن جثامہ لیثی رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے تھے۔ ان کا بیان تھا کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک گورخر ہدیہ کیا تھا۔ آپ اس وقت مقام ابواء یا ودان میں تھے اور محرم تھے۔ آپ نے وہ گورخر واپس کردیا۔ صعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کے بعد جب آپ نے میرے چہرے پر ( ناراضی کا اثر ) ہد یہ کی واپسی کی وجہ سے دیکھا، تو فرمایا کہ ہد یہ واپس کرنا مناسب تو نہ تھا لیکن بات یہ ہے کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔
تشریح :
گویا کسی وجہ کی بنا پر ہدیہ واپس بھی کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ وجہ معقول اور شرعی ہو۔ وہ ہدیہ بھی ناجائز ہے جو کسی ناجائز مقصد کے حصول کے لیے بطور رشوت پیش کیا جائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ارشاد کا یہی مقصد ہے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ فان کان لمعصیۃ فلا یحل وہو الرشوۃ و ان کان لطاعۃ فیستحب و ان کان لجائز فجائز ان کا مطلب بھی وہی ہے جو مذکور ہوا کہ رشوت کسی گناہ کے لیے ہو تو وہ حلال نہیں ہے اور اگر جائز کام کے لیے ہے تو وہ مستحب ہے۔
گویا کسی وجہ کی بنا پر ہدیہ واپس بھی کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ وجہ معقول اور شرعی ہو۔ وہ ہدیہ بھی ناجائز ہے جو کسی ناجائز مقصد کے حصول کے لیے بطور رشوت پیش کیا جائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ارشاد کا یہی مقصد ہے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ فان کان لمعصیۃ فلا یحل وہو الرشوۃ و ان کان لطاعۃ فیستحب و ان کان لجائز فجائز ان کا مطلب بھی وہی ہے جو مذکور ہوا کہ رشوت کسی گناہ کے لیے ہو تو وہ حلال نہیں ہے اور اگر جائز کام کے لیے ہے تو وہ مستحب ہے۔