كِتَابُ الغُسْلِ بَابُ المَضْمَضَةِ وَالِاسْتِنْشَاقِ فِي الجَنَابَةِ صحيح حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَالِمٌ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنَا مَيْمُونَةُ قَالَتْ: «صَبَبْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا، فَأَفْرَغَ بِيَمِينِهِ عَلَى يَسَارِهِ فَغَسَلَهُمَا، ثُمَّ غَسَلَ فَرْجَهُ، ثُمَّ قَالَ بِيَدِهِ الأَرْضَ فَمَسَحَهَا بِالتُّرَابِ، ثُمَّ غَسَلَهَا، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ، وَأَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى، فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ، ثُمَّ أُتِيَ بِمِنْدِيلٍ فَلَمْ يَنْفُضْ بِهَا»
کتاب: غسل کے احکام و مسائل
باب: غسل جنابت کرتے وقت کلی کرنا
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے، کہا مجھ سے سالم نے کریب کے واسطہ سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، کہا ہم سے میمونہ نے بیان فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا۔ تو پہلے آپ نے پانی کو دائیں ہاتھ سے بائیں پر گرایا۔ اس طرح اپنے دونوں ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑ کر اسے مٹی سے ملا اور دھویا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر اپنے چہرہ کو دھویا اور اپنے سر پر پانی بہایا۔ پھر ایک طرف ہو کر دونوں پاؤں دھوئے۔ پھر آپ کو رومال دیا گیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پانی کو خشک نہیں کیا۔
تشریح :
معلوم ہوا کہ وضو اور غسل دونوں میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا واجب ہے۔ کذا قال اہل الحدیث وامام احمدبن حنبل۔ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ وضو کے بعد اعضاءکے پونچھنے کے بارے میں کوئی حدیث نہیں آئی۔ بلکہ صحیح احادیث سے یہی ثابت ہے کہ غسل کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومال واپس کردیا۔ جسم مبارک کو اس سے نہیں پونچھا۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس بارے میں بہت اختلاف ہے۔ کچھ لوگ مکروہ جانتے ہیں کچھ مستحب کہتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ پونچھنا اور نہ پونچھنا برابرہے۔ ہمارے نزدیک یہی مختارہے۔
معلوم ہوا کہ وضو اور غسل دونوں میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا واجب ہے۔ کذا قال اہل الحدیث وامام احمدبن حنبل۔ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ وضو کے بعد اعضاءکے پونچھنے کے بارے میں کوئی حدیث نہیں آئی۔ بلکہ صحیح احادیث سے یہی ثابت ہے کہ غسل کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومال واپس کردیا۔ جسم مبارک کو اس سے نہیں پونچھا۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس بارے میں بہت اختلاف ہے۔ کچھ لوگ مکروہ جانتے ہیں کچھ مستحب کہتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ پونچھنا اور نہ پونچھنا برابرہے۔ ہمارے نزدیک یہی مختارہے۔