‌صحيح البخاري - حدیث 2584

كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا بَابُ مَنْ رَأَى الهِبَةَ الغَائِبَةَ جَائِزَةً صحيح حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: ذَكَرَ عُرْوَةُ، أَنَّ المِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَمَرْوَانَ، أَخْبَرَاهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ، قَامَ فِي النَّاسِ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ جَاءُونَا تَائِبِينَ، وَإِنِّي رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ، فَلْيَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا»، فَقَالَ النَّاسُ: طَيَّبْنَا لَكَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2584

کتاب: ہبہ کے مسائل، فضیلت اور ترغیب کا بیان باب : جن کے نزدیک غائب چیز کا ہبہ کرنا درست ہے ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا ابن شہاب سے، ان سے عروہ نے ذکر کیا کہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان بن حکم نے انہیں خبر دی کہ جب قبیلہ ہوازن کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطاب فرمایا اور اللہ کی شان کے مطابق ثناءکے بعد آپ نے فرمایا : اما بعد ! یہ تمہارے بھائی توبہ کرکے ہمارے پاس آئے ہیں اور میں یہ ی بہتر سمجھتا ہوں کہ ان کے قیدی انہیں واپس کردئیے جائیں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے ( قیدیوں کو ) واپس کرناچاہے وہ واپس کردے اور جو یہ چاہے کہ انہیں ان کا حصہ ملے ( تو وہ بھی واپس کردے ) اور ہمیں اللہ تعالیٰ ( اس کے بعد ) سب سے پہلی جو غنیمت دے گا، اس میں سے ہم اسے معاوضہ دے دیں گے۔ لوگوں نے کہا ہم اپنی خوشی سے ( ان کے قیدی واپس کرکے ) آپ کا ارشاد تسلیم کرتے ہیں۔
تشریح : مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے، زہری و قریشی ہیں۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بھانجے ہیں۔ ہجرت نبی کے دو سال بعد مکہ میں ان کی پیدائش ہوئی۔ ذی الحجہ 8 ھ میں مدینہ منورہ پہنچے۔ وفات نبوی کے وقت ان کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث کی سماعت کی اور ان کو یاد رکھا۔ بڑے فقیہ اور صاحب فضل اور دیندار تھے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت تک مدینہ ہی میں مقیم رہے۔ بعد شہادت مکہ میں منتقل ہوگئے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات تک وہیں مقیم رہے۔ انہوں نے یزید کی بیعت کو پسند نہیں کیا۔ لیکن پھر بھی مکہ ہی میں رہے جب تک کہ یزید نے لشکر بھیجا اور مکہ کا محاصرہ کرلیا۔ اس وقت ابن زبیر رضی اللہ عنہ مکہ ہی میں موجود تھے۔ چنانچہ اس محاصرہ میں مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کو بھی منجنیق سے پھینکا ہوا ایک پتھر لگا۔ یہ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے۔ اس پتھر سے ان کی شہادت واقع ہوئی۔ یہ واقعہ ربیع الاول64ھ کی چاند رات کو ہوا۔ ان سے بہت سے لوگوں نے روایت کی ہے۔ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے، زہری و قریشی ہیں۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بھانجے ہیں۔ ہجرت نبی کے دو سال بعد مکہ میں ان کی پیدائش ہوئی۔ ذی الحجہ 8 ھ میں مدینہ منورہ پہنچے۔ وفات نبوی کے وقت ان کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث کی سماعت کی اور ان کو یاد رکھا۔ بڑے فقیہ اور صاحب فضل اور دیندار تھے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت تک مدینہ ہی میں مقیم رہے۔ بعد شہادت مکہ میں منتقل ہوگئے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات تک وہیں مقیم رہے۔ انہوں نے یزید کی بیعت کو پسند نہیں کیا۔ لیکن پھر بھی مکہ ہی میں رہے جب تک کہ یزید نے لشکر بھیجا اور مکہ کا محاصرہ کرلیا۔ اس وقت ابن زبیر رضی اللہ عنہ مکہ ہی میں موجود تھے۔ چنانچہ اس محاصرہ میں مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کو بھی منجنیق سے پھینکا ہوا ایک پتھر لگا۔ یہ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے۔ اس پتھر سے ان کی شہادت واقع ہوئی۔ یہ واقعہ ربیع الاول64ھ کی چاند رات کو ہوا۔ ان سے بہت سے لوگوں نے روایت کی ہے۔