‌صحيح البخاري - حدیث 2581

كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا بَابُ مَنْ أَهْدَى إِلَى صَاحِبِهِ وَتَحَرَّى بَعْضَ نِسَائِهِ دُونَ بَعْضٍ صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ نِسَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنَّ حِزْبَيْنِ، فَحِزْبٌ فِيهِ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ وَصَفِيَّةُ وَسَوْدَةُ، وَالحِزْبُ الآخَرُ أُمُّ سَلَمَةَ وَسَائِرُ نِسَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ المُسْلِمُونَ قَدْ عَلِمُوا حُبَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَائِشَةَ، فَإِذَا كَانَتْ عِنْدَ أَحَدِهِمْ هَدِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُهْدِيَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَخَّرَهَا حَتَّى إِذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ، بَعَثَ صَاحِبُ الهَدِيَّةِ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ، فَكَلَّمَ حِزْبُ أُمِّ سَلَمَةَ فَقُلْنَ لَهَا: كَلِّمِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمُ النَّاسَ، فَيَقُولُ: مَنْ أَرَادَ أَنْ يُهْدِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدِيَّةً، فَلْيُهْدِهِ إِلَيْهِ حَيْثُ كَانَ مِنْ بُيُوتِ نِسَائِهِ، فَكَلَّمَتْهُ أُمُّ سَلَمَةَ بِمَا قُلْنَ، فَلَمْ يَقُلْ لَهَا شَيْئًا، فَسَأَلْنَهَا، فَقَالَتْ: مَا قَالَ لِي شَيْئًا، فَقُلْنَ لَهَا، فَكَلِّمِيهِ قَالَتْ: فَكَلَّمَتْهُ حِينَ دَارَ إِلَيْهَا أَيْضًا، فَلَمْ يَقُلْ لَهَا شَيْئًا، فَسَأَلْنَهَا، فَقَالَتْ: مَا قَالَ لِي شَيْئًا، فَقُلْنَ لَهَا: كَلِّمِيهِ حَتَّى يُكَلِّمَكِ، فَدَارَ إِلَيْهَا فَكَلَّمَتْهُ، فَقَالَ لَهَا: «لاَ تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ فَإِنَّ الوَحْيَ لَمْ يَأْتِنِي وَأَنَا فِي ثَوْبِ امْرَأَةٍ، إِلَّا عَائِشَةَ»، قَالَتْ: فَقَالَتْ: أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مِنْ أَذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ إِنَّهُنَّ دَعَوْنَ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقُولُ: إِنَّ نِسَاءَكَ يَنْشُدْنَكَ اللَّهَ العَدْلَ فِي بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، فَكَلَّمَتْهُ فَقَالَ: «يَا بُنَيَّةُ أَلاَ تُحِبِّينَ مَا أُحِبُّ؟»، قَالَتْ: بَلَى، فَرَجَعَتْ إِلَيْهِنَّ، فَأَخْبَرَتْهُنَّ، فَقُلْنَ: ارْجِعِي إِلَيْهِ، فَأَبَتْ أَنْ تَرْجِعَ، فَأَرْسَلْنَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ، فَأَتَتْهُ، فَأَغْلَظَتْ، وَقَالَتْ: إِنَّ نِسَاءَكَ يَنْشُدْنَكَ اللَّهَ العَدْلَ فِي بِنْتِ ابْنِ أَبِي قُحَافَةَ، فَرَفَعَتْ صَوْتَهَا حَتَّى تَنَاوَلَتْ عَائِشَةَ وَهِيَ قَاعِدَةٌ فَسَبَّتْهَا، حَتَّى إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:157] لَيَنْظُرُ إِلَى عَائِشَةَ، هَلْ تَكَلَّمُ، قَالَ: فَتَكَلَّمَتْ عَائِشَةُ تَرُدُّ عَلَى زَيْنَبَ حَتَّى أَسْكَتَتْهَا، قَالَتْ: فَنَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَائِشَةَ، وَقَالَ: «إِنَّهَا بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ»، قَالَ البُخَارِيُّ: «الكَلاَمُ الأَخِيرُ قِصَّةُ فَاطِمَةَ»، يُذْكَرُ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَقَالَ أَبُو مَرْوَانَ عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عُرْوَةَ: كَانَ النَّاسُ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ، وَعَنْ هِشَامٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ، وَرَجُلٍ مِنَ المَوَالِي، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، قَالَتْ عَائِشَةُ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَتْ فَاطِمَةُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2581

کتاب: ہبہ کے مسائل، فضیلت اور ترغیب کا بیان باب : اپنے کسی دوست کو خاص اس دن تحفہ بھیجنا جب وہ اپنی ایک خاص بیوی کے پاس ہو ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید بن ابی اویس نے، ان سے سلیمان نے ہشام بن عروہ سے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کی دو ٹکڑیاں تھیں۔ ایک میں عائشہ، حفصہ، صف یہ اور سودہ اور دوسری میں ام سلمہ اور بق یہ تمام ازواج مطہرات تھیں۔ مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عائشہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت کا علم تھا اس لیے جب کسی کے پاس کوئی تحفہ ہوتا اور وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تو انتظار کرتا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عائشہ رضی اللہ عنہ کے گھر کی باری ہوتی تو تحفہ دینے والے صاحب اپنا تحفہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجتے۔ اس پر ام سلہ رضی اللہ عنہ کی جماعت کی ازواج مطہرات نے آپس میں مشورہ کیا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کریں تاکہ آپ لوگوں سے فرمادیں کہ جسے آپ کے یہاں تحفہ بھیجنا ہو وہ جہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں وہیں بھیجا کرے۔ چنانچہ ان ازواج کے مشورہ کے مطابق انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا لیکن آپ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر ان خواتین نے پوچھا تو انہوں نے بتادیا کہ مجھے آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ازواج مطہرات نے کہا کہ پھر ایک مرتبہ کہو۔ انہوں نے بیان کیا پھر جب آپ کی باری آئی تو دوبارہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔ اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ ازواج نے اس مرتبہ ان سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مسئلہ پر بلواو¿ تو سہی۔ جب ان کی باری آئی تو انہوں نے پھر کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ فرمایا۔ عائشہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مجھے تکلیف نہ دو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوا اپنی بیویوں میں سے کسی کے کپڑے میں بھی مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر انہوں نے عرض کیا، آپ کو ایذا پہنچانے کی وجہ سے میں اللہ کے حضور میں توبہ کرتی ہوں۔ پھر ان ازواج مطہرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ کہلوایا کہ آپ کی ازواج ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے بارے میں اللہ کے لیے آپ سے انصاف چاہتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میری بیٹی ! کیا تم وہ پسند نہیں کرتی جو میں پسند کروں؟ انہوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں، اس کے بعد وہ واپس آگئیں اور ازواج کو اطلاع دی۔ انہوں نے ان سے پھر دوبارہ خدمت نبوی میں جانے کے لیے کہا۔ لیکن آپ نے دوبارہ جانے سے انکار کیا تو انہوں نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ وہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئیں تو انہوں نے سخت گفتگو کی اور کہا کہ آپ کی ازواج ابوقحافہ کی بیٹی کے بارے میں آپ سے خدا کے لیے انصاف مانگتی ہیں اور ان کی آواز اونچی ہوگئی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا وہیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے ( ان کے منھ پر ) انہیں بھی برا بھلا کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے کہ وہ کچھ بولتی ہیں یا نہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی بول پڑیں اور زینب رضی اللہ عنہا کی باتوں کا جواب دینے لگیں اور آخر انہیں خاموش کردیا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ یہ ابوبکر کی بیٹی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ آخر کلام فاطمہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ سے متعلق ہشام بن عروہ نے ایک اور شخص سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے زہری سے روایت کی اور انہوں نے محمد بن عبدالرحمن سے اور ابومروان نے بیان کیا کہ ہشام سے اور انہوں نے عروہ سے کہ لوگ تحائف بھیجنے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کا انتظار کیا کرتے تھے اور ہشام کی ایک روایت قریش کے ایک صاحب اور ایک دوسرے صاحب سے جو غلاموں میں سے تھے، بھی ہے۔ وہ زہری سے نقل کرتے ہیں اور وہ محمد بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام سے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا جب فاطمہ رضی اللہ عنہ نے ( اندر آنے کی ) اجازت چاہی تو میں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی خدمت میں موجود تھا۔
تشریح : ہوا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویاں ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں جمع ہوئیں اور یہ کہا کہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ آپ اپنے صحابہ کو حکم دیں کہ وہ ہدئیے اور تحائف بھیجنے میں یہ راہ نہ دیکھتے رہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فلاں بیوی کے گھر تشریف لے جائیں تو ہم تحائف بھیجیں، بلکہ بلا قید آپ کسی بیوی کے پاس ہوں بھیج دیا کریں۔ چنانچہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے معروضہ پر کچھ التفات نہیں فرمایا۔ وجہ التفات نہ فرمانے کی یہ تھی کہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی درخواست معقول نہ تھی۔ تحفہ بھیجنے والے کی مرضی جب چاہے بھیجے، اس کو جبراً کوئی حکم نہیں دیا جاسکتا کہ فلاں وقت بھیجے فلاں وقت نہ بھیجے۔ اس طویل حدیث میں اسی واقعہ کی تفصیل مذکور ہے اور حدیث اور باب میںمطابقت ظاہرہے۔ جہاں تک بیویوں کے حقوق واجبہ کا تعلق تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے لیے ایک ایک رات کی باری مقرر فرمائی ہوئی تھی اور اسی کے مطابق عمل درآمد ہورہا تھا۔ چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کچھ خصوصی اوصاف حسنہ تھے اور آپ انہیں کی وجہ سے ان سے زیادہ محبت فرمایا کرتے تھے۔ اس لیے تحائف بھیجنے والے بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے یہ سوچا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہ کی باری میں ان کے ہاں آیا کریں اس وقت ہدیہ تحفہ بھیجا کریں گے۔ اس پر دوسری ازواج مطہرات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درخواست کی کہ صحابہ رضی اللہ عنہ کو اس خصوصیت سے روک دیں۔ مطالبہ درست نہ تھا لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی توجہ نہ فرمائی حتیٰ کہ حضرت فاطمۃ الزہراءرضی اللہ عنہا کو درمیان میں لایاگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے میری پیاری بیٹی! کیا تم ان کو دوست نہیں رکھتی جن کو میں دوست رکھتا ہوں۔ اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں حضور بے شک میں بھی جسے آپ دوست رکھتے ہیں اس کو دوست رکھتی ہوں۔ اس کے بعد حضرت فاطمہ ہمیشہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو دوست رکھتی رہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ مناقبت عائشہ رضی اللہ عنہ میں فرماتے ہیں کہ اللہ جانتا ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ دنیا و آخرت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں۔ خدا کی پھٹکار ہو ان بدزبان بے لگام نالائق لوگوں پر جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان میں زبان درازی کریں۔ ہداہم اﷲ الیٰ صراط مستقیم، آمین۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ہیں اور جس طرح حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ صحابہ کرام میں زیادہ علم و فضل رکھتے تھے ویسے ہی ان کی صاحبزادی بھی عورتوں میں عالمہ اور فاضلہ اور مقررہ تھیں۔ ہزاروں اشعار ان کو برزبان یاد تھے۔ فصاحت اور بلاغت میں کوئی ان کا مثیل نہ تھا۔ وذلک فضل اﷲ یوتیہ من یشائ اور سب سے بڑی فضیلت یہ کہ سرکار رسالت نے ان کو بہت سی خصوصیات کی بنا پر اپنی خاص رفیقہ حیات قرار دیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کا خاص اکرام کیا۔ و کفی بہ فضلا حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اس طویل حدیث کو یہاں اس لیے لائے کہ باب کا مضمون اس سے صراحتاً ثابت ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی خاص دوست کو تحفے تحائف اس کی خاص بیوی کی باری میں پیش کرسکتا ہے۔ الحمد للہ اپریل1970ءکی پانچ تاریخ تک کعبہ شریف مکۃ المکرمہ میں یہ پارہ اس حدیث تک پڑھاگیا اور احادیث نبویہ کے لفظ لفظ پر غور و فکر کرکے اللہ سے کعبہ میں دعاءکی گئی کہ وہ مجھے اس کے سمجھنے اور تحقیق حق کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ و مختصر جامع شرح لکھنے کی توفیق عطا کرے اور اس باقیات الصالحات کا ثواب عظیم میرے مرحوم بھائی حاجی محمد علی عرف بلاری پیارو قریشی بنگلور کے حق میں بھی قبول کرے جن کی طرف سے حج بدل کرنے کے سلسلے میں مجھ کو زیارت حرمین شریفین کی یہ سعادت نصیب ہوئی۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم ہوا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویاں ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں جمع ہوئیں اور یہ کہا کہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ آپ اپنے صحابہ کو حکم دیں کہ وہ ہدئیے اور تحائف بھیجنے میں یہ راہ نہ دیکھتے رہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فلاں بیوی کے گھر تشریف لے جائیں تو ہم تحائف بھیجیں، بلکہ بلا قید آپ کسی بیوی کے پاس ہوں بھیج دیا کریں۔ چنانچہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے معروضہ پر کچھ التفات نہیں فرمایا۔ وجہ التفات نہ فرمانے کی یہ تھی کہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی درخواست معقول نہ تھی۔ تحفہ بھیجنے والے کی مرضی جب چاہے بھیجے، اس کو جبراً کوئی حکم نہیں دیا جاسکتا کہ فلاں وقت بھیجے فلاں وقت نہ بھیجے۔ اس طویل حدیث میں اسی واقعہ کی تفصیل مذکور ہے اور حدیث اور باب میںمطابقت ظاہرہے۔ جہاں تک بیویوں کے حقوق واجبہ کا تعلق تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے لیے ایک ایک رات کی باری مقرر فرمائی ہوئی تھی اور اسی کے مطابق عمل درآمد ہورہا تھا۔ چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کچھ خصوصی اوصاف حسنہ تھے اور آپ انہیں کی وجہ سے ان سے زیادہ محبت فرمایا کرتے تھے۔ اس لیے تحائف بھیجنے والے بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے یہ سوچا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہ کی باری میں ان کے ہاں آیا کریں اس وقت ہدیہ تحفہ بھیجا کریں گے۔ اس پر دوسری ازواج مطہرات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درخواست کی کہ صحابہ رضی اللہ عنہ کو اس خصوصیت سے روک دیں۔ مطالبہ درست نہ تھا لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی توجہ نہ فرمائی حتیٰ کہ حضرت فاطمۃ الزہراءرضی اللہ عنہا کو درمیان میں لایاگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے میری پیاری بیٹی! کیا تم ان کو دوست نہیں رکھتی جن کو میں دوست رکھتا ہوں۔ اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں حضور بے شک میں بھی جسے آپ دوست رکھتے ہیں اس کو دوست رکھتی ہوں۔ اس کے بعد حضرت فاطمہ ہمیشہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو دوست رکھتی رہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ مناقبت عائشہ رضی اللہ عنہ میں فرماتے ہیں کہ اللہ جانتا ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ دنیا و آخرت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں۔ خدا کی پھٹکار ہو ان بدزبان بے لگام نالائق لوگوں پر جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان میں زبان درازی کریں۔ ہداہم اﷲ الیٰ صراط مستقیم، آمین۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ہیں اور جس طرح حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ صحابہ کرام میں زیادہ علم و فضل رکھتے تھے ویسے ہی ان کی صاحبزادی بھی عورتوں میں عالمہ اور فاضلہ اور مقررہ تھیں۔ ہزاروں اشعار ان کو برزبان یاد تھے۔ فصاحت اور بلاغت میں کوئی ان کا مثیل نہ تھا۔ وذلک فضل اﷲ یوتیہ من یشائ اور سب سے بڑی فضیلت یہ کہ سرکار رسالت نے ان کو بہت سی خصوصیات کی بنا پر اپنی خاص رفیقہ حیات قرار دیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کا خاص اکرام کیا۔ و کفی بہ فضلا حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اس طویل حدیث کو یہاں اس لیے لائے کہ باب کا مضمون اس سے صراحتاً ثابت ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی خاص دوست کو تحفے تحائف اس کی خاص بیوی کی باری میں پیش کرسکتا ہے۔ الحمد للہ اپریل1970ءکی پانچ تاریخ تک کعبہ شریف مکۃ المکرمہ میں یہ پارہ اس حدیث تک پڑھاگیا اور احادیث نبویہ کے لفظ لفظ پر غور و فکر کرکے اللہ سے کعبہ میں دعاءکی گئی کہ وہ مجھے اس کے سمجھنے اور تحقیق حق کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ و مختصر جامع شرح لکھنے کی توفیق عطا کرے اور اس باقیات الصالحات کا ثواب عظیم میرے مرحوم بھائی حاجی محمد علی عرف بلاری پیارو قریشی بنگلور کے حق میں بھی قبول کرے جن کی طرف سے حج بدل کرنے کے سلسلے میں مجھ کو زیارت حرمین شریفین کی یہ سعادت نصیب ہوئی۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم