كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا بَابُ مَنْ أَهْدَى إِلَى صَاحِبِهِ وَتَحَرَّى بَعْضَ نِسَائِهِ دُونَ بَعْضٍ صحيح حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: «كَانَ النَّاسُ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمِي» وَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: «إِنَّ صَوَاحِبِي اجْتَمَعْنَ، فَذَكَرَتْ لَهُ، فَأَعْرَضَ عَنْهَا»
کتاب: ہبہ کے مسائل، فضیلت اور ترغیب کا بیان
باب : اپنے کسی دوست کو خاص اس دن تحفہ بھیجنا جب وہ اپنی ایک خاص بیوی کے پاس ہو
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ہشام سے، ان سے ان کے والد نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ لوگ تحائف بھیجنے کے لیے میری باری کا انتظار کیا کرتے تھے۔ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا میری سوکنیں ( امہات المؤمنین رضوان اللہ علیہ ن ) جمع تھیں اس وقت انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( بطور شکایت لوگوں کی اس روش کا ) ذکر کیا۔ تو آپ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔
تشریح :
اس لیے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ اپنی مرضی کے مختار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج شناس تھے، وہ از خود ایسا کرتے تھے پھر انہیں روکا کیوں کر جاسکتا تھا۔
اس لیے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ اپنی مرضی کے مختار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج شناس تھے، وہ از خود ایسا کرتے تھے پھر انہیں روکا کیوں کر جاسکتا تھا۔